سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

دعاؤں کے پڑھنے میں مسنون انداز اختیار کرنا چاہے

  • 14579
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1358

سوال

دعاؤں کے پڑھنے میں مسنون انداز اختیار کرنا چاہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دوست جب سفر پر یا عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو روزانہ صبح شام کسی ایک یا بعض افراد کو صبح و شام کے مسنون اذکار پڑھنے کو کہتے ہیں باقی سب لوگ سنتے رہتے ہیں (خود نہیں پڑھتے) اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب رسول اللہ ﷺ صبح شام کچھ خاص اذکار کے ساتھ اللہ کو یاد کرتے اور خاص دعائیں پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام ﷢ نے وہ دعائیں سن کر یاد کرلیں وہ بھی جناب رسول اللہﷺ کی پیروی کرتے ہوئے انفرادی طور پر یہ اذکار اور دعائیں پڑھنے لگے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے  رسول اللہﷺ یا صحابہ کرام ﷢سے ایسا کوئی طریقہ مروی نہیں کہ وہ مل کر یہ دعائیں اور اذکار پڑھتے ہوں یا اکٹھے پڑھتے ہوں یا ایک پڑھتاہو اور باقی خاموشی سے سنتے ہوں۔ مسلمانوں کو چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس دعا کرنے کی کیفیت میں اور تمام شرعی امور میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام﷢ کے طریقے پر عمل کریں ۔ بھلائی تمام تر ان ی اتباع ہی میں ہے اور ہر قسم کا شران کی مخالفت میں۔ لہٰذا ذکر دعا کے لیے جمع ہونا یا سے ایک طریقہ اور عادت بنا لیتا بدعت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا هذا مَالَیْسَ مِنْه فَهوَ رَدٌّ))

’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘

((إِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ اْالُٔامُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة وَکُلَّ بِدْعَة ضََلَالَة))

’’نئے ایجا ہونے والے کاموں سے بچو، ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

ابن عمر﷜ نے فرمایا: ’’ رسول اللہ ﷺ صبح اورشام کے وقت ان کلمات کو ترک نہیں فرماتے تھے:

((اَللّٰھُمَّ إِنَّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَة فِی دِیْنِی وَدُنْیَایَ وَأَھْلِی وَمَالِی، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی وَاحْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی وَعَنْ یَمِیْنی وَعَنْ شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی وَأَعُوذُ بَعَظْمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی))

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دین ، دنیا اور اہل اور مال میں عافیت ک سوال کرتاہوں۔ اے اللہ ! میری پردہ پوشی فرما اور پریشانیوں سے امن دے اور میرے حفاظت فرما میرے اگے ، پیچھے ، دائیں بائیں  اور اوپر کی جانب سے اور تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ مجھے نیچے سے اچانک پکڑ لیا جائے۔ (یعنی زمین میں دھنس جانے سے تیری پناہ میں اتا ہوں )۔‘‘

یہ حدیث امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے حضرت ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ جب صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺفرماتے:

((اللّٰھُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْکَ النُّشُورُ))

’’ اے اللہ ہم نے تیری توفیق سے صبح کی اور تیری توفیق سے شام کی اور تیرے حکم سے زندہ ہیں اور تیرے حکم سے مریں گے اور تیری طرف ہی اٹھ کر جانا ہے۔‘‘

شام کو یہی الفاظ فرماتے لیکن والیک النشور کی بجائے الیک المصیر (تیر ی ہی طرف واپسی ہے ) فرماتے۔ یہ حدیث ابوداؤد، نسائی ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے