دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مؤذن جب مینار پر فجر کی اذان کہتے ہیں تو اذان شروع کرنے سے پہلے دو تین بار کہتے ہیں صَلُّوْا (نماز پڑھو)یاکہتے ہیں اَلصَّلاَة(نماز) پھر اذان شروع کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ کہنے دیا جائے یامنع کیا جائے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دین کی بنیاد نبیﷺ کی پیروی اور اتباع پرہے، بدعت اور ایجاد پر نہیں ، اس کی تائید جناب رسول اللہﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
’’ جس نے کوئی ایسا عمل کی اجو ہمارے دین کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
اور رسول اللہaنے فرمایا:
’’ نئے ایجاد کئے جانے والے کاموں سے بچو، کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے۔‘‘
اسی طرح یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ شرعی اذان فجر میں سترہ کلمات اور باقی نمازوں کے لیے پندرہ کلمات پر مشتمل ہے۔ جب شرعی طو رپر ثابت کام میں کوئی اضافہ کیا جائے ، خواہ شروع میں اضافہ کیاگیا ہو، یا س کے آخر میں تو اس اضافہ کو بدعت کہا جائے گا اور اس کی تردید کرنا ضروری ہوگا اور جو شخص یہ کام کر ے اسے منع کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اذان میں اس سے زیادہ بلیغ ،زیادہ مئوثر اور زیادہ بیدار کرنے والے الفاظ موجود ہیں۔ کیونکہ مؤذن پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان بیان کرتا ہے۔، اس کے بعد دوبار حَیَّ عَلیَ الصَّلاة (نماز کی طرف آئو ) حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ (کامیابی کی طرف آئو) کے الفاظ دہراتا ہے ۔ اس لیے مذکورہ مؤذن جو الفاظ کہتے ہیں او راذان سے پہلے پر زائد الفاظ صَلُّوا یا الَصَّلاة وغیرہ کہتے ہیں انہیں سے منع کرنا چاہے تاکہ شرعی عمل غیر شرعی بدعات سے محفوظ رہے۔