محترم علمائے دین ! مندرجہ ذیل مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا ر سول اللہ ﷺ نے تروایح قرآن ختم ہونے پر کوئی کھانے پینے کی چیزیا مٹھائی تقسیم کی تھی، یا کسی صحابی ، تابعی ، تبع تابعی ی اسلف صالحین میں سے کسی نے ایسا کیا تھا؟’ اگر یہ کام خیرالقرون میں ہونا ثابت ہے تو ہمیں کتاب کا نام‘ جلد ، صفحہ اور مطبع سے مطلع فرمائیں۔ اگر ثابت نہیں تو ہمیں بادلیل بتائیں کہ کیا یہ کام شرعا جائز ہے جب کہ وہ پابندی سے کیاجائے اور یہ کام کرنے والا کھانے پینے کی اس چیز کو یا اس مٹھائی کو تبرک سمجھتا ہو؟
ہماری معلومات کی مطابق نبیﷺ یاکسی صحابی ، تابعی یا امام سے یہ ثا بت نہیں کہ جب وہ تراویح میں قرآن مجید ختم کرتے تھے تو کھانے پینے کی چیز یا مٹھائی تقسیم کرتے تھے اور اس کام کوالتزام سے ادا کرتے تھے ۔ بلکہ یہ نئی ایجاد شدہ بدعت ہے ۔ کیونکہ یہ ایک عبادت کے بعد عمل میں لائی جاتی ہے اور اس عبادت کی وجہ سے اور اس کے وقت کے مطابق کی جاتی ہے اور دین میں ایجاد ہونے وای ہر بدعت گمراہی ہے کیونکہ ا س سے شریعت پر نامکمل ہونے پر الزام لگتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمالیا۔‘‘
حضرت عریاض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:’’ ہمیں رسول اللہ نے ایسا وعظ فرمایا کہ اس سے دلوں میں خوف پیدا ہوگیا اور آنکھیں اشک بار ہوگیں۔ ہم نے عرض کی : یارسول! یوں لگتاہے کہ یہ الوادع کہنے والے کی نصیحت ہے تو آپ ہمیں کوئی (خاص) وصیت فرمائیں۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سن کر مان لینے کی وصیت کرتاہوں اگرچہ کوئی غلام ہی تمہارا امیر بن جائے۔ جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا بہت اختلاف دیکھے گا۔ لہٰذا میری سنت پر اور میرے بعد آنے والے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا۔ انہیں مضبوطی سے تھامنا، (بلکہ) داڑھوں سے پکڑ کر رکھنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا، کیونکہ ہرنیا کام بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضرت امام مالک نے فرمایا:
((مَنْ أَحْدَثَ فِی الدَّینِ مَالَیْسَ مِنْه فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَانَ الرَّسَالَة))’’ جو شخص دین میں بدعت جاری کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ محمدﷺنے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں (نعوذباللہ) خیانت کی ہے ‘‘
کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمالیا۔‘‘
لہٰذا جوچیز اس وقت دین میں نہیں تھی وہ آج بھی دین بندسکتی۔ لیکن اگر کبھی کبھی یہ کام ہوجائے اور اسے لازمی نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔