گزارش یہ ہے کہ مدارس کی طرف سے ہم سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ سکول میں صبح کی اسمبلی میں اگر طالبات بلند آواز سے سورئہ فاتح پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ چونکہ اس مسئلہص میں شرعی حکم معلوم کرنا ایک اہم معاملہ ہے اس لیے جناب سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کا جواب ارشاد فرمائیں تاکہ مدارس کو اس کی اطلاع دی جاسکے۔
معافی سمجھتے ہوئے اور مطالب میں غور فکر کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کرنا سب سے بڑا ثواب کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ، خیر کی توفیق طلب کرنا ، رزق کی فراخی اور دوسری بھلائیوں کی دعا کرنا جائز عبادت ہے ۔ لیکن سوال میں ذکر کردہ انداز سے سورتیں اشخاص پر تقسیم کر کے ہر ایک کا ایک ایک سورت پڑھنا تاکہ اس کے بعد رزق کی فراخی کی دعا کی جائے یہ کام بدعت ہے ، کیونکہ یہ نبیﷺ کے ارشاد سے بھی ثابت نہیں، عمل سے بھ نہیں، نہ کسی صحابی یا امام سے ثابت ہے اور بھلائی تو سب سلف صالحین کے طریق کے اتباع میںہے اور برائی بعد کے لوگوں کی بدعتوں میں ہے اور یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے ہمارے اس کام (دین) میں کوئی نئی چیز نکالی جو (دراصل) اس میں سے نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعاکرنا تو ہر وقت ، ہرجگہ اور تنگی و فراخی ہر حال میں جائز ہے ۔ شریعت نے نماز کے سجدہ کے دوران اور سحر کے وقت اور نماز کا سلام پھیرنے سے پہلے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ ہمارا رب ہر رات اس وقت آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتاہے جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ اور فرماتاہے: ’’ مجھے کون پکارتا ہے میں اس کی دعا قبول کرلوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے، میں اسے عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے،میں اس کو بخش دوں۔‘‘
یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیہے اور سیدنا عبداللہ بن عباسe کی یہ حدیث بھی ثابت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’ رکوع میں رب کی عظمت بیان کرو اور سجدہ میں خوب دعا کرو، یہ حق رکھتی ہے کہ قبول کر لی جائے۔‘‘
یہ حدیث امام احمد، مسلم ، نسائی اور ابوداؤد نے روایت کی ہے اور سیدنا ابوہریرہﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ نبی a نے فرمایا:
’’ بندہ رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اکثرت سے دعا کیاکرو۔‘‘
یہ حدیث مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کی ہے صحیحین میں جناب عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے انہیں تشہد سکھایا ، پھر فرمایا: