سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اپنی طرف سے وقت اور تعداد مقرر کرنا

  • 14559
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1415

سوال

اپنی طرف سے وقت اور تعداد مقرر کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 گزارش ے کہ مجھے اس باتے میں فتوی دین کہ میں عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھ کر سورۃ الفاتحہ بار بار پڑھتا ہوا وار اس میں کسی تعداد کا تعین نہیں کرتا ۔ مثلا سو بار ہوجائے یا زیادہ تعداد مقرر رکتا ہوںوقت متعین کرتاہوں واضح کریں کہ میں قرآن کریم ہمیشہ اس نیت سے پڑھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ اجرو ثواب حاصل ہو،کیا میرا یہ عمل بدعت قراردیاجائے گا؟  میں فاتحہ پڑھنے کے بعد توبہ استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور بخشش کی دعاکرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق بخشے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلافم ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بندوں کے کلام سے اس طرح افضل ہے جس طرح خود اللہ تعالیٰ کی ذات بندوں سے افضل ہے ۔ تلاوت قرآن مجید کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی صحیح مقدار اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں لیکن تلاوت کرنے والے کوایسا نہیں کرنا چاہے کہ کسی خاص مقصد کے لیے کوئی سورت یا آیت تلاوت کے لیے خاص کرلی۔ مگر جو چیزیں رسول اللہﷺ نے خاص کردی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے اس تخصیص کا لحاظ چاہئے۔ مثلا دم جھاڑ کے لیے سورت الفاتحہ ، یانماز کی ہر رکعت میں سورت الفاتحہ پڑھنا ، سوتے وقت اس نیت سے آیت الکرسی پڑھنا کہ اللہ تعالیٰ اس (پڑھنے والے کو) شیطان سے محفوظ رکھے ، یا دم کرنے کے لیے سورت ’’ قل ہو اللہ احدo قل أعوذ برب الفلقo اور قل أعوذ برب الناس پڑھنا۔

اسی طرح کسی سورت یاآیت کو متعین تعداد میں دہرانا بھی درست نہیں الایہ کہ وہ نبیa سے ثابت ہو ۔ کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت میں شریعت کی طرف سے تعین کا خیال رکھنا چاہے۔

اس سے واض ہوتا ہے کہ رات کو وتر کے بعد بار بار پڑھنے کے لیے سورت الفاتحہ کی تخصیص بدعت ہے، اگرچہ تعداد کا تعین نہ کرے۔ کیونکہ یہ عمل نبیa سے ثابت ہے نہ خلفائے راشدین میں سے ثابت ہے ۔ اس لیے بہتریہ ہے کہ فاتحہ کی یاوتر کے بعد پڑھنے کی تعین کے بغیر تلاوت کی جائے ۔ بلکہ مشروع توصر ف قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرنا ہے  خواہ وہ سورئہ فاتحہ ہو یا کوئی اور مقام اسے کسی معین تعداد  و وقت کے بغیر پڑھنا جائز ہے اور اس کے شریعت سے کوئی چیز ثابت ہوجائے تو درست ہے جیسے کہ پہلے وضاحت ہوچکی ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے