آپ کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے چند افراد کو دعوت دی، انہوں نے حسب توفیق قرآن مجید پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور دیگر مسلمانوں کے لیے دعا کی۔ پھر اس نے انہیں کھانا کھانے کو کہا جو پہلے سے تیار کیا گیا تھا، کھانا کھا کر وہ لوگ چلے گئے۔
اسی سوال میں یہ بھی ہے کہ دعوت دینے والے نے آنے والوں کو قرآن مجید کے الگ الگ پارے دے دیئے۔ ہر شخص نے وہ پارہ پڑھا جو اس کے پاس تھا۔ سب کے فارغ ہونے پر ان میں سے ایک نے اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعائے خیر کی اور یہ سمجھ لیا کہ ان سب نے مل کر برکت کے لیے مکمل قرآن مجید ایک بار پڑھ لیا ہے۔1۔ قرآن مجید کی اجتماعی تلاوت ومطالعہ کایہ طریقہ تو صحیح ہے کہ ایک آدمی پڑھتا ہے اور دوسرے سنتے ہیں ۔ پھر اس پر غور فکر کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ثواب کاکام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کوپسند ہے اور اس پر بہت اجر ملتا ہے صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’جب بھی کچھ لوگ اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان (فرشتوں) میں ان کا ذکر کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔‘‘
قرآن مجید کی تکمیل ہونے پر دعا کرنا بھی جائز ہے لیکن اسے ایک مستقل (لازمی) عمل نہیں بنالینا چاہے۔ نہ کسی خاص لفظ کی ا س طرح پابندی کی جائے گویا کہ یہ بھی کوئی سنت ہے۔ کیونکہ یہ عمل نبی aسے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ بعض صحابہ نے ایسا کیا ہے ۔ تلاوت کے موقع پر موجود لوگوں کوکھانا کھلانے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے مستقل رواج نہ بنالیاجائے۔
۲۔ حاضرین میں قرآن مجید کے اجزاء تقسیم کرنا ، تاکہ ہر کوئی اپنے حصے ک قرآن پڑھے ، ظاہر ہے کہ اسے ہر ایک آدمی کی طرف مکمل قرآن کی تلاوت قرار نہیںدیا جاسکتا اور پڑھتے ہوئے ـمحض حصول برکت کی نیت رکھنا کو تاہی ہے کیونکہ تلاوت کا مقصداللہ تعالیٰ کے قر ب حصول بیھ ہے ۔ قرآن کو یادکرنا اس پر غور کرنا ، اس کے احکام کی سمجھ حاصل کرنا اس سے عبرت حاصل کرنا، اجروثواب کا حصول، زبان کو تلاوت کا عادی بنانا اور اس قسم کے اور بہت سے فوائد کا حصول بھی ہے۔