سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) مولد النبیؐ میں نماز پڑھنے کا حکم

  • 1455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1154

سوال

(257) مولد النبیؐ میں نماز پڑھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مفتی فضل عظیم بھیروی نے مناظرانہ رنگ میں یہ مسئلہ دریافت کیا ہے ۔ انہوں نے محدث روپڑی کو مخاطب کرکے لکھا ہے:

جائے ولادت حضور اکرم ﷺ پر قبہ تھا او راس میں پوجا پاٹ یعنی نفل و نوافل عاشقان رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام پڑھتے تھے۔ پوجا پاٹ ہندی لفظ ہے جس کے معنی عبادت ہے۔ کیا آپ کو یہ عبادت ناجائز معلوم دیتی ہے۔ آپ نے تو یہ لفظ حقارتاً استعمال کیاہے۔ مولوی صاحب ! شب معراج کو ہمارے حضورؐ نے بیت اللحم جائے ولادت عیسیٰ علیہ السلام پر نفل نہیں ادا کئے۔ یہ بھی حضورؐ کی جائے ولادت ہے۔ مجھے  تو یہ ساری دنیاسے پیاری لگتی ہے۔ تابوت سکینہ میں کیاتھا۔ عصاء موسیٰ، عمامہ ہارون جس کے ذریعہ بنی اسرائیل فتح یاب ہوتے رہے۔ جلسہ ولادت حضورؐ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے فیوض الحرمین میں لکھا ہے ۔ انہوں نے وہاں جلسہ میں شامل ہوکر دیکھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جائے ولادت حضورؐ سے آپ کو محبت ہے تو صحابہ یا خیرقرون کو نہ تھی؟ بلکہ آپ سےبہت زیادہ تھی۔ پھر انہوں نے وہاں کیوں نفل نہ پڑھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو سلف کی روش پسند نہیں۔ آپ بھی بریلیوں کی طرح واہی تباہی باتوں کی رو میں بہہ گئے ہیں۔

تبرک باثار صالحین سے کسی کو انکار نہیں لیکن  اسی طریق پر ہونا چاہیے جیسے صحابہؓ یا خیر قرون نے حاصل کیا۔ مثلاً کوئی شخص حجر اسود پر نماز پڑھے او رمقام ابراہیم کو بوسہ دے تو بدعتی ہوگا کیونکہ سنت  حجر اسود کا بوسہ ہے اور  مقام ابراہیم پر نماز ہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص مسجد کو اللہ کا گھر سمجھ کر بیت اللہ کی طرح اس کا طواف کرے تو اس کو بھی بدعتی کہا جائے گا۔ کیونکہ  خیر قرون میں ایسا نہیں ہوا ۔ سلف کی روش جس کو پسند نہیں وہ خدا کا پیارا کبھی نہیں بن سکتا۔ فیوض الحرمین کا آپ نےحوالہ دیا ہے وہاں میلاد النبیؐ کا کوئی جلسہ مذکور نہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کااعتقاد سنی سنائی باتیں ہیں جیسے  بریلوی فرقہ اس مرض میں مبتلا ہے۔ آپ کا بھی قریباً یہی حال ہے۔ خدا اس سے محفوظ رکھے

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص347 

محدث فتویٰ

تبصرے