سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اہل بدعت کو خوش اسلوبی سے سمجھانا چاہئے

  • 14549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1172

سوال

اہل بدعت کو خوش اسلوبی سے سمجھانا چاہئے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں دمشق کی ایک مسجد میں نماز پڑھتا ہوں۔ ہر فرض نماز میں ایساہوتا ہے کہ جب ہم نماز پڑھ لیتے ہیں تو لوگ ایک کو کہتے ہیں وہ بلند آواز سے ایت الکرسی، سور ت اخلاص اور معوذتیں پڑھتاہے۔ جب وہ پڑھ چکتا ہے تب ہر نمازی آیت الکرسی اور تینوں سورتیں پرھتا ہے ۔ کیا یہ عمل نبیﷺ سے ثابت ہے یا بدعت ہے؟ کیا مجھے بھی ان کی موافقت کرنی چاہے اور اس پر ہمیشہ عمل کرناچاہے ؟ مجھے معلوم ہے کہ آیت الکرسی وغیرہ پڑھ سکتا ہے کہ جسے یاد نہیں اسے (سن کر )آیت الکرسی اور معوذتیں یاد ہوجائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے  بعدمذکورہ اشیاء بلند آواز سے پڑھنا کسی ایک نمازی کے لیے جائز ہے نہ سب کامل کر بلند آواز سے پڑھناجائز ہے اگرچہ تعلیم کے ادادہ سے ہی ہو، بلکہ یہ بدعت ہے کیونکہ نبیﷺ اسے ایسا کرنا ثابت نہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نبی ﷺ کا ارشاد موجود ہے۔

((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا هذا مَالَیْسَ مِنْه فَهوَ رَدٌّ))

’’ جس نے ہمارے اس دین میں وہ چیز ایجا دکی جواس میں سے نہیں تو بہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

اس لیے آپ کو ان کی بدعت کی تائید نہیں کرنی چاہے بلکہ اس کی تردید کر دیں اور اچھے طریقے سے نصیحت کے انداز سے ان کو صحیح بات سجھائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ...١٢٥﴾...النحل

’’ اپنے رب کے راستے کیطرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے اس انداز سے بحث کیجئے جو بہت اچھا ہو۔‘‘

اور یہ حدث ثابت ہے کہ نبی a نے فرمایا:

((مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْه بِیَدِه فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ ))
’’ تم میں سے جو شخص کوئی برا کام دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا سمجھے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ ‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے