بدعت کی کتنی قسمیں ہیں؟ کیا ہر بدعت گمراہی ہے ؟ اگر یہی بات ہے تو قرآن مجید میں زبر زیر پیش اور نقطے لگانا سبھی بدعت ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کلے زمانے میں قرآن مجید صفحات پر لکھا جاتاتھا اور اس میں اس طرح حرکات نہیں ہوتی تھیں جس طرح آج ہمیں نظر اتی ہیں ۔ کیایہ حرکات لگانا بدعت ہے؟ او رکیا یہ گمراہی والی بدعت ہے؟
بدعت کی دو قسمیں ہیں: دینی بدعت اور دنیوی بدعت۔ دنیاوی بدت کی مثال نئی نئی وجود میں آنے والی صنعتیں اور ایجادات ہیں ، ان میں اصل جواز ہے۔ ممنوع صرف وہی ہوگی جس کے منع کے لے شرعی دلیل آجائے۔
دینی بدعت میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناز کردہ شریعت کیطرح دین میں نئی مثلا بیک آوازمل کر اللہ کا ذکر کرنا، موالد (میلا وغیرہ) کی بدعتیں (رسم چہلم) ، قبرپر میت کے لیے قرآن پڑھنے کی بدعت اور اس طرح کی بے شمار بدعتیں۔ ان دینی بدعات کو مختلف اقسام میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام نکالا جو (اصل میں ) اس میں شامل نہیں وہ ناقابل قبول ہے۔ـ‘‘
یہ حدیث بخاری اور مسلم i نے روایت کی ہے ۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
’’ جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر (دین) نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
اسے مسلم نے روایت کیا ۔ عرباض بن ساریہ ﷺ نے فرمایا: ’ جناب رسو ل اللہﷺ نے ایک دفعیہ ہمیں ایک پر اثر وعظ فرمایا: جس سے دلوں میں خوف پیدا ہوگیا اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں ۔ ہم نے عرض کی: ’’ یارسول ﷺ ! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے کوی الوداع کہتے ہوے نصیحت کیا کرتا ہے ، تو آپ ہمیں(کوی خاص واہم) وصیت فرمائے۔ تب نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی اور سن کر حکم ما نے کی وصیت کرتاہوں اگر چہ تم پر کوئی حبشی غلام ہی حاکم بن جئاے اور میرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، (اس وقت) تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا ، اسے داڑھوں کے ساتھ (مضبوطی سے ) پکڑنا اور نئے نئے کاموں سے پچنا،کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘
یہ حدیث احمد ، ابوائود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔
قرآ ن مجید پر نقطے اور حرکات لگانا بدعت نہیں اگرچہ رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ چیز موجود نہیں تھی کیونکہ یہ چیز مصالح مرسلہ میں سے ہے۔ قرآن مجید کی حفاظت کے لیے شریعت میں جو عمومی احکام پائے جاتے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے۔ آپ امام شاطبی کی کتاب ’’ الاعتصام ‘‘ کا مطاعلہ کریں ۔ انہوں نے اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔