سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) مسجد ضرار

  • 1454
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 1990

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید مسجد میں امامت کراتا تھا۔ باتفاق رائے عمرو کو اس مسجد کا امام مقرر کیاگیا لیکن زید کے دل میں حسدپیدا ہوا اور عمرو کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ اس نے اپنے رفقاء کو لے کر ایک او رمسجد کی بنیاد رکھ دی اور زید اس میں امامت کرانے لگ گیا او رنماز عید بھی جدا پڑھی ۔عمرو نے جدید مسجد کو مسئلہ کی رو سےمسجد ضرار قرار دے دیا تین سال کے بعد عمرو کسی دوسرے گاؤں میں چلا گیا اور اس کے بعد پھر اہل قریہ میں اتفاق ہوگیا۔طلب امر یہ ہے کہ اس پختہ مسجد اور سابقہ خام مسجد  کا حکم ایک ہے؟ اس لیے کہ بنیادوں پر تھوڑا بہت فرق ڈال کر تعمیر کی جارہی ہے ۔ کیااس مسجد میں نماز پڑھنی درست ہے یانہیں۔ جواب مدلل دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو کچھ سوال میں ذکر ہوا ہے اس کے رُو سے اس مسجد کے ضرار ہونے میں کوئی شبہ نہیں خواہ اسی جگہ بنائی جائے یااس جگہ کے آگے پیچھے بنائی جائے کیونکہ مسجد ضرار کی تعریف قرآن مجید میں یہ کی گئی ہے کہ اس کی بناء تقویٰ پرنہ ہو چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

﴿أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾---التوبة109

ترجمہ ’’کیا جو شخص اپنی عمارت کی بنیاد تقویٰ اور رضا الٰہی پر رکھے وہ بہتر ہے یا وہ جو اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی پر رکھے۔ پس اس نے اس کو جہنم میں گرا دیا اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘

اس آیت میں جس مسجد کی بنیاد صحیح ہے۔ اس کی بابت تقویٰ اور رضا الٰہی کا ذکر کیا۔ اور جس کی بنیاد صحیح نہیں۔ اس کی بابت فرمایا کہ اس کی بنیاد جہنم کی کھائی کے کنارہ پر ہے او راس کھائی سے مراد یہی ہے کہ تقویٰ اور رضا الٰہی تعمیر مسجد کا باعث نہ ہو بلکہ آپس کی نزاع او رجھگڑا فساد اس کی تعمیر کا باعث ہو اور خواہ مخواہ پارٹی کی صورت اختیار کرلی جائے او رجماعت میں تفرقہ پیدا کردیا جائے۔ چنانچہ  قرآن مجید میں اس سے پہلے ارشاد ہے : 

﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾---التوبة107

 ترجمہ : ’’ منافقوں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے مسجد بنائی جماعتی ضرر کے لیے اور کفر کے لیے او رمؤمنوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے اور اُس شخص کی گھات کے لیے جس نے اس سے پہلے خدا و رسولؐ سے لڑائی کی اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے صرف نیکی کا ارادہ کیا اور خدا شہادت دیتاہے کہ بے شک وہ البتہ جھوٹے ہیں۔‘‘

اس آیت میں کئی باتیں ذکر کی ہیں جن سے جماعتی ضرر اور« تفرقه بین المؤمنین» بھی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جس مسجد کی بنیاد کا باعث آپس کی نزاع ہو۔ اُس کی بنیاد صحیح نہیں۔ وہ مسجد ضرار ہے۔ خواہ کسی جگہ بنائی جائے کیونکہ مسجد کی صحت و فساد بنانے والے کی حالت پر ہے۔ اگر آپس کی نزاع او رپھوٹ او رپارٹی بازی کی وجہ سے دوسری مسجدکی بنیاد ڈالتا ہے تو خواہ کسی جگہ بنائے وہ مسجد ضرار ہوگی کیونکہ اس کی بنیاد تقویٰ اور رضا الٰہی پر نہیں بلکہ  شر اور فساد اور ضدی معاملہ ہے اور اگر ضدی معاملہ نہیں بلکہ محض رضا الٰہی پر  سے اس کی بنیاد ڈالی جاتی ہے جیسے پہلی مسجد تیار ہوئی ہے تو وہ مسجد ضرار نہیں۔ جس مسجد کا سوال میں ذکر ہے اس کا باعث آپس کااختلاف اور جھگڑا ہے اور ضد میں آکر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔اس لیے اس کی بنیاد صحیح نہیں۔ ہاں اگر دونوں فریق رضا مند ہوجائیں اور ان کا آپس میں اتفاق  و اتحاد ہوجائے او رباتفاق رائے دوسری مسجد کی ضرورت محسوس کریں۔ مثلاً نمازی زیادہ ہیں ۔ ایک مسجد میں سما نہیں سکتے او رمحلے الگ الگ ہیں تو ایسی صورت میں مسجد کی بنیاد صحیح ہوجائے گی ورنہ ہرگز ہرگز دوسری مسجد تیارنہ کی جائے خدا نخواستہ کہیں مال ضائع اور گناہ لازم والا معاملہ نہ ہوجائے ۔ خدا اپنے فضل و کرم سے ایسے فتنے سے محفوظ رکھے۔ نیکی کی توفیق بخشے اور انجام بخیر کرے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص345 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ