سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

دنیا کا گمراہ ترین مذہب

  • 14535
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 5010

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دروز فرقہ کے بارے میں معلومات درکار ہیں‘ براہ کرم اس فرقے کے عقائد ونظریات اور اقدامات پر روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجلس افتاء وتحقیقات علمیہ کو محترم المقام نائب وزیر داخلہ کا مکتوب گرامی وصول ہوا۔ جس کا حوالہ نمبر (۲س۵۴۰۰) بتاریخ ۱۵ جمادی اولی ۱۳۹۷ھ ہے اور محترم رئیس عام کے نام تحریر کیا ہے۔ مجلس نے آں جناب کے مکتوب گرامی کے ساتھ وصول ہونے والے دو مطبوعہ پمفلٹ بھی ملاحظہ کئے جن میں دو فرضی شخصیت کے درمیان ہے جسے درزی نے ’’شیخ مشائخ ازہر‘‘ کا لقب دیا ہے اور اس کا نام ’’مصطفی رافعی‘‘ لکھا ہے۔ دوسرا کلمہ کسی ’’شیخ الحق حسینی‘‘ نام کے (بقول ان کے) سنی عالم اور کسی درزی پروفیسر کے درمیان ہے جسے ’’ابو حسن ہانی زیدان‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ وزیرمحترم کے ارشاد کے مطابق ان کا مطالعہ کرکے درج ذیل موضوعات پر یہ مقالہ قلم بند کی گیا ہے۔

(۱)       دروزی مذہب کا مختصر تعارف‘ جس سے ان کی حقیقت واضح ہوگی۔

(۲)       مذکورہ بالا دو مکالموں کے متعلق مختصر توضیحات جن سے ان میں موجود دوھوکا وفریب واضح ہوگا۔

مذہب دروز کا مختصر تعارف

دروزی فرقہ باطنی قرامطی فرقوں میں سے ایک خفیہ فرقہ ہے جن کی امتیازی خصوصیت تقیہ اور غیروں سے اپنی حقیقت چھپا کر رکھنا ہے۔ یہ لوگ بسا اوقات ظاہری طور پر دین داری اور زہدوتقویٰ کا لباس پہن کر آتے ہیں اور دین کے متعلق جھوٹ موٹ غیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی وہ شیعیت اور اہل بیت کی محبت کے رنگ میں سامنے آتے ہیں اور کبھی تصوف کا جامعہ پہن لیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگوں کے باہمی اختلاف کے خاتمہ اور اتحاد کے علم بردار ہیں اور اسی طرح لوگوں کو دین کے بارے میں دھوکا دیتے ہیں ‘ لیکن جب انہیں موقع ملتا ہے‘ قوت حاصل ہوتی ہے اور ایسے حکمران مل جاتے ہیں جو ان سے دوستی رکھتے ہوں‘ اس وقت وہ اصل صورت میں سامنے آتے ہیں‘ اپنے عقائد کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے مقاصد واضح کردیتے ہیں‘ وہ شر اور فساد کی دعوت دینے والے اور دین‘ عقیدہ اور ا خلاق کی عمارت کو مسمار کرنے والے بن جاتے ہیں۔

یہ امور ہر اس شخص کے سامنے واضح ہیں جو ان کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اور ان کی سیرت اس دن سے جانتا ہے جب عبداللہ بن سباحمیری یہودی نے ان کے اصولوں کی بنیاد رکھی اور ان کا بیج بویا تھا۔ اس کے بعد ہر دور میں وہ انہیں اصولوں کے قائل رہے۔ چھوٹوں نے بڑوں سے یہی کچھ سیکھا اور اپنے بعد والوں کو اسی کی تلقین کی اور ان پر پختگی سے عمل پیرا رہے۔ آج تک ان کی کیفیت یہی ہے۔

دروز اگرچہ باطنی قرامطی فرقہ کی ایک شاخ ہے تاہم ان کی نسبت‘ زمانئہ ظہور اور حالات کے لحاظ سے جن میں یہ ظاہر ہوئے‘ ان کی بعض خاص علامات اور مظاہر بھی ہیں۔

ذیل میں اختصار کے ساتھ اس پہلو کو واضح کیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں اور علمائے کرام کا ان کے متعلق فیصلہ پیش خدمت ہے۔

(۱)       دروز کی نسبت ’’درزی‘‘ کی طرف ہے۔ اس شخص کا پورا نام عبداللہ محمد بن اسماعیل درزی ہے۔ اس کا نام عبداللہ درزی اور درزی بن محمد بھی نقل کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ محمد بن اسماعیل درزی کا نام تشتگین یا ہشتگین درزی بھی ہے۔ ایک قول کے مطابق ان کا تعلق فارس کے ایک شہر طیروز سے ہے۔ زبیدی نے ’’تاج‘‘ میں کہا ہے کہ درزی کے لفظ کو ’’دال‘‘ کے زبر سے پڑھنا درست ہے اور یہ نسبت ’’درزہ‘‘ کی اولاد کی طرف ہے۔ جس کا مطلب ہے کپڑا بننے والے‘ کپڑا سینے والے اور دوسرے ادنیٰ طبقہ کے لوگ۔

(۲)       محمد بن اسماعیل درزی ایک عبیدی باشاہ الحاکم بامرہ ابو علی منصور بن عزیز کے زمانے میں ظہور ہوا۔ عبیدی خاندان کے مصر پر تقریباً دو سال حکومت کی ہے۔ یہ لوگ اہل بیت سے تعلق رکھنے کے مدعی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حضرت فاطمہd کی اولاد سے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ جھوٹ تھا۔

محمد بن اسماعیل درزی پہلے اسماعیلی باطنی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا جو محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کے پیرو کہلاتے ہیں۔ پھر وہ اس فرقہ سے الگ ہو کر عبیدی حاکم سے جاملا اور اس کے دعویٰ الوہیت کی تائید کرنے لگا۔ اس نے لوگوں کو حاکم کی عبادت کری طرف بلانا شروع کر دیا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ حضرت علیb میں حلول کر گیا ہے اور ا س نے علیb کی ناسوت کا لباس پہن لیا ہے اور علیb کی روح ان کی نسل میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتے ہوتے حاکم تک پہنچ گئی ہے۔ (اس طرح حاکم میں علیb کی روح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی الوہیت بھی حلول کر گئی ہے)۔ حاکم نے مصر میں تمام اختیارات درزی کو دے دیئے تاکہ لوگ اس کے دعویٰ کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کریں۔ جب اس کی حقیقت کھلی تو مصر میں مسلمان ا س کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے بہت سے ساتھیوں کو قتل کردیا۔ جب اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بھاگ کر حاکم کے پاس جا چھپا۔ اس نے اسے مال ودولت دے کر شام بھیج دیا تاکہ وہاں اپنا مذہب پھیلائے۔ وہ شام پہنچ کر دمشق کے مغرب میں تیم اللہ بن تعلبہ کی وادی میں ٹھہرا اور انہیں حاکم کی الوہیت پر ایمان لانے کو کہا‘ وہاں اس نے لوگوں کو خوب مال دیا اور درزی مذہب کے عقائد پھیلانے شروع کردئے چنانچہ لوگوں نے اس کا مذہب قبول کر لیا۔

حاکم کی خدائی ہی کو تبلیغ کے لے ایک اور فارسی شخص بھی اٹھا‘ اس کا نام حمزہ بن علی احمد حاکمی درزی ہے۔ وہ باطنیہ کے بڑے لیڈروں میں سے تھا۔ اس نے حاکم کی پارٹی کی خفیہ دعوت کے افراد سے رابطہ قائم کیا۔ ہوتے ہوتے وہ اس تنظیم کے مرکزی افراد میں شمار ہونے لگا۔ پہلے وہ چوری چھپے حاکم کی الوہیت کا عقیدہ پھیلاتا رہا‘ بعد میں اعلانیہ اس عقیدہ کی دعوت دینے لگا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ حاکم کا رسول ہے۔ حاکم نے اس دعویٰ میں ا س کی تائید کی۔ جب حاکم فوت ہوا‘ تو ملک کی قیادت اس کے بیٹے علی کے حصہ میں آئی۔ اس کا لقب ’’ظاہر لا عزاز دین اللہ‘‘ تھا۔ اس نے اپنے باپ کو دعویٰ الوہیت سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور مصر سے یہ دعوت ختم ہوگئی۔ چنانچہ حمزہ شام کی طرف فرار ہوگیا‘ اس کے ساتھ اس کے بعض ہم خیال افراد بھی چلے گئے۔ ان میں سے اکثر اس علاقے میں جابسے جو بعد میں شام کے اندر ’’جبل الدروز‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

ان کے اہم عقائد

(۱)       وہ حلول کے قائل ہی: ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیb کی ذات میں حلول کیا‘ ان کے بعد ان کی اولاد میں یکے بعد دیگرے حلول کرتا رہا حتیٰ کہ حاکم عبیدی ابو علی منصور بن عبدالعزیز کی ذات میں حلول کیا۔ یعنی الوہیت اس کی ناموست میں حلول کرگئی۔ وہ حاکم کی رجعت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ غائب بھی ہوجاتا ہے اور ظاہر بھی ہوجاتا ہے۔

(ب)    تقیہ: وہ اپنے اصل مذہب سے کسی کو واقف نہیں ہونے دیتے‘ صرف اسی کو حقیقت معلوم ہوتی ہے جو ان کا ہم مذہب ہوتا ہے۔ وہ اپنے راز کی جماعت کے صرف اس شخص پر ظاہر کرتے ہیں جس پر انہیں اعتماد ہو اور اس سے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔

(ج)      عصمت ائمہ: ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ غلطی اور گناہ سے معصوم ہیں بلکہ وہ انہیں اللہ کے سوا معبود بنا کر باقاعدہ ان کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ حاکم کے ساتھ ان کا رویہ تھا۔

(د)       علم باطن کا دعویٰ: وہ کہتے ہیں کہ نصوص شریعت کے باطنی معنی بھی ہوتے ہیں اور درحقیقت ظاہری معنی کے بجائے وہی معنی مقصود ہوتے ہیں اس کی بنیاد پر انہوں نے قرآن وحدیث کی اخبار اور اورمرونواہی پر مشتمل نصوص میں معنوی تحریف کی ہے۔

اخبار پر مشتمل نصوص میں انہوں نے اس طرح تحریف کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صاف کمال کا انکار کیا‘ روز قیامت اور اس میں ہونے والے حساب وکتاب اور جزاء وسزا‘ جنت وجہنم سب کا انکار کیا‘ اس کے بدلے آواگون اور تناسخ ارواح کا عقیدہ اختیار کیا یعنی ان کے قول کے مطابق جب کوئی انسان یا حیوان مرتا ہے تو اس کی روح کسی اور انسان یا حیوان کے جسم میں داخل ہو کر ایک نئی زندگی شروع کردیتی ہے اور اسی زندگی میں اسے (سابقہ زندگی کے اعمال کے مطابق) نعمت وراحت یا عذاب ومصیبت حاصل ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمانہ ہمیشہ رہنے والا ہے اور جہان ابدی ہے‘ ماؤں سے نئے افراد جنم لیتے ہیں اور زمین کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں اور انبیاء کی رسالت کے منکر ہیں اور اپنے اصول ونظریات میں ارسطو کے پیروکار اور مشائین کے فلسفوں کے فلسفیوں کے مقلد ہیں۔

اوامرونواہی پر مشتمل نصوص میں انہوں نے اس طرح تحریف کی ہے کہ انہیں نئے خود ساختہ معانی دے دئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز سے مراد روزانہ پڑھی جانے والی پانچ نمازیں نہیں بلکہ اس کا مطلب ان کے اسرار کا علم حاصل کرنا ہے۔ روزہ کا مطلب یہ نہیں کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کا مطلب اسرار کی حفاظت ہے۔ حج کا مطلب مقدس ہستیوں کی ملاقات ہے۔ وہ ہر قسم کی ظاہر اور پوشیدہ بے حیائی کو جائز قرار دیتے ہیں حتیٰ کہ ماں بہن سے نکاح بھی حلال سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ نصوص کی مضحکہ خیز تاویلات اور متفق علیہ واضح شرعی فرائض کا انکار ان کا شیوہ ہے۔ اسی طرح امام ابو حامد غزالی اور دیگر علماء نے ان لوگوں کے متعلق کہا گیا ہے:

(ظَاھِرُ مَذھَبِھِمُ الرَّفْضُ وَبَاطِنَه الْکُفْرُ الْمَحْضُ)

’’ان کے مذہب کی ظاہری صورت رافضیت ہے اور اندر سے اصل حقیقت کفر ہے۔‘‘

اس طرح وہ اپنے عقائد‘ اعمال اور طریق کار میں ’’رسائل اخوان الصفا‘‘ والوں سے بہت مشابہ ہیں۔

(ھ)      وہ دہریہ والا عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ طبیعت (فطرت) زندگی کو پیدا کرتی ہے اور موت کا سبب حرارت عزیزی کا ختم ہونا جس طرح تیل ختم ہونے پر چراغ بجھ جاتا ہے‘ الاّ یہ کہ کوئی شخص حادثاتی طور پر اس سے پہلے مر جائے۔

(د)       وہ اپنے مذہب کی تبلیغ میں دھوکے اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ وہ جسے دعوت دیتے ہیں اس کے سامنے اہل بیت کی محبت اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان کی بات مان لیتا ہے تو اسے رافضیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اور صحابہ کرام ؓ کے عیوب اور غلطیاں بیان کرتے ہیں اور صحابہ پر تنقید کرتے ہیں۔ جب وہ شخص اس مسئلہ میں ان کا ہم خیال ہوجاتا ہے تو پھر حضرت علیbکے عیوب ونقائص بیان کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ہوجاتا ہے تو پھر انبیائے کرام ؓ پر طعن وتشنیع پر اتر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انبیاء جن کاموں کی طرف اپنی امتوں کو بلاتے تھے ہو ان کا ظاہر تھا‘ ان کا باطنی اور سر (انداز) کچھ اور تھا۔ کہتے ہیں کہ نبی ذہین اور سمجھدار تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے لئے یہ شریعتیں اور قانون اس لئے بنائے تھے کہ اس طرح وہ حضرات اپنے دنیوی اغراض ومقاصد حاصل کرسکیں۔

ان کے متعلق شرعی حکم

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے دروز اور نصیریوں کے متعلق شرعی حکم پوچھا گیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا:

’’مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ درزی اور نصیری لوگ کافر ہیں‘ ان کا ذبیحہ کھانا یا ان کی عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔ بلکہ ان سے جزیہ لے کر (اسلامی سلطنت میں) رہنے دینا بھی درست نہیں کیونکہ یہ مرتد ہیں۔ نہ وہ مسلمان ہیں‘ نہ یہودی اور نہ عیسائی۔ یہ لوگ پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل ہیں نہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے‘ نہ حج کی فرضیت کے‘ نہ یہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء مثلاً مراد اور شراب وغیرہ کی حرمت کے قائل ہیں۔ ان عقائد کے حامل ہوتے ہوئے یہ زبان سے لاَ اِلٰه أِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله کا اقرار بھی کریں‘ تب بھی کافر ہیں۔ ان عقائد ترک نہ کریں)۔ نصیری فرقہ کے لوگ ابو ثہیب محمد بن نصیر کے پیروکار ہیں۔ وہ ان غالی لوگوں میں سے تھا جو علی﷜ کو اللہ مانتے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھتے ہیں۔؎

أَشْھَدُ أَنْ لاَ أِلاَ أِلاَّ حَیْدَرَة الْأَنْزَاعُ الْبَطِیْنُ
وَلاَ حِجَابَ عَلَیْه        مُحَمَّدٌ الصَّادِقُ الْأَمِیْنُ
وَلاَ طَرِیقَ إلَیْه أَلاَّ   سَلْمَانُ ذُوالْقُوَّة الْمَتِیْنُ

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے گنجے سروالے‘ بڑے پیٹ والے حیدر کے اور اس پر کوئی پردہ نہیں سوائے سچے دیانت دار محمدﷺ کے‘اور اس تک پہنچنے کاکوئی راستہ نہیں سوائے مضبوط طاقت والے سلمان کے۔‘‘

درزی فرقہ ھشتگین درزی کا پیروکار ہے۔ یہ شخص مصر کے عبیدی قبیلہ کے ایک باطنی حکمران ’’الحاکم بامرہ‘‘ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس نے اسے وادی تیم اللہ بن تعلبہ کے باشندوں کی طرف بھیجا‘ اس نے انہیں حکم دیا کہ رب ماننے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اسے ’’الباری الغلام‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور اس کی قسم کھاتے ہیں۔ یہ اسماعیلی فرقہ کی ایک شاخ ہیں‘ جن کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل نے حضرت محمدﷺ کی شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ لوگ دوسرے غلو کرنے والے فرقوں سے زیادہ سخت کافر ہیں۔ دنیا کے ازلی ہونے کے قائل ہیں۔ قیامت کے منکر ہیں۔ اسلام کے فرائض ومحرمات کے منکر ہیں۔ ان کا تعلق باطنیہ کے فرقہ ’’قرامطہ‘‘ سے ہے جو یہودونصاریٰ اور مشرکین عرب سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں فلسفی کہا جاسکتا ہے۔ جو ارسطو وغیرہ کے مذہب پر ہیں یا وہ مجوسی ہیں۔ ان کا عقیدہ فلسفیوں اور مجوسیوں کے عقائد کا ملغوبہ ہے۔ نفاق کے طور پر وہ خود کو شیعہ کہتے ہیں۔‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ہی نے روزے کے بعض فرقوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

’’ان لوگوں کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں‘ بلکہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کافر ہے۔ ان کا مقام اہل کتاب والا ہے نہ مشرکین والا بلکہ یہ گمراہ کافر ہیں۔ لہٰذا ان کا کھانا پینا جائز نہیں‘ ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اور ان کے مال (غنیمت کے طور پر) لے لئے جائیں۔ یہ مرتد زندیق ہیں۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں ملیں انہیں قتل کیا جائے‘ ان سے پہرہ یا دربانی کی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ ان کے علماء اور (بظاہر) صوفیہ کو بھی قتل کرنا واجب ہے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ سونا‘ ان کے ساتھ چلنا‘ جب ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ‘ سب حرام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو حد اور سزا مقرر کی ہے‘ اسے نافذ نہ کریں۔ واللہ المستعان 

پہلے مکالمہ میں جو کذب بیانی اور فریب ہے اس کی وضاحت

(۱)       پہلے مکالمہ کے شروع میں مذکور ہے کہ یہ بات چیت ابو ازہر یونیورسٹی کے ایک درزی طالب علم شیخ شوقی حمادہ اور ازہر کے امام شیخ مصطفی رافعی کے درمیان ہوئی‘ جنہیں بعد میں ’’ازھر کے شیخ المشائخ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

اس کلام میں خلط وتلبیس بھی ہے اور کذب وافترا بھی۔ خلط اس طرح کہ امام ازہرن صاحب کو کہا جاتا ہے جوازہر یونیورسٹی کی جامع مسجد میں پانچویں نمازیں پڑھاتے ہیں اور بسا اوقات جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کا تعلق وزارت اوقاف سے ہے اور ازھر کے شیخ المشائخ نہ تو نماز کے امام مقرر ہیںنہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں بلکہ وہ ازھر کے تعلیمی امور کے نگران ہیں۔ ان کا عہدہ نماز کے امام سے اعلیٰ مانا جاتا ہے۔ (یعنی یہ وہ الگ الگ شحصیتیں ہیں‘ جب کہ مذکورہ مکالمہ میں انہیں ایک شخصقرار دیا گیا ہے۔)

اس میں جھوٹ اور افترا یہ ہے کہ ازہر کی تاریخ میں کسی دور میں ایک دن کے لئے بھی مصطفی رافعی نام کا کوئی شخص جامع ازھر کا شیخ (چانسلر) نہیں رہا‘ نہ ازہر کے مشائخ کا استاد رہا۔ یہ تاریخی حقیقت اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے پر عظیم ترین شاہد ہے اور یہ اس بات کی پختہ ترین دلیل ہے کہ اس پمفلٹ کو شائع کرنے ولا حقائق کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا‘ بلکہ یہ تمام مکالمہ جعلی اور فرضی ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ درزی باطنی فرقہ کی شاخ ہیں جن کا کام بھی جھوٹ‘ فریب اور تقیہ ہے اور کسی چیز کا اپنے معدن میں پایا جانا باعث تعجب نہیں ہوتا۔

(۲)       درزی نے اس فرضی شیخ مصطفی رافعی سے سوال کیا: ’’دروز کے متعلق جناب کی کیا رائے ہے؟‘‘

شیخ رافعی نے جواب میں کہا: ’’درزی فرقہ کے لوگ اپنے رسم ورواج اور اخلاق وعادات کے لحاظ سے تو مسلمان ہیں۔ البتہ مذہبی طور پر ہم انہیں مسلمان شمار نہیں کرتے۔‘‘

اس قسم کا جواب کوئی ایسا عام انسان بھی نہیں دے سکتا جو اسلام کے عقائد واحکام سے واقف ہو اور دروز کے عقائد‘ کردار وار حالات سے واقف ہو۔ چہ جائیکہ ازھر کے شیخ المشائخ اس قسم کا جواب دیں اور اسلام کے عقائد اور دروز کی تاریخ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ظاہر میں مسلمان ہیں نہ حقیقت میں۔ حالات جب بھی ان کے حق میں ساز گار ہوتے ہیں‘ ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اور وہ اپنے کفر والحد کا برملا اظہار کردیتے ہیں‘ مسلمان وں کے مال‘ جان اور آبرو پر دست رازی کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔

جس طرح مصر کے ایک عبیدی حکمران ’’حاکم عبیدی‘‘ کے دور میں ہوا۔ البتہ جب ان پر حالات کا دباؤ پڑتا ہے اور وہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں تو تقیہ پر عمل کرتے ہوئے دین داری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور منافقت اختیار کریت ہوئے غیرت اور اصلاح کا اظہار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ اس کے باوجود درزی طالب علم نے نام نہاد شیخ المشائخ ازھر کے جواب کو پسند نہیں کیا اور

(۳)      اس نے کہا: ’’کیا وجہ؟

فرضی شیخ نے جواب دیا: ’’کیونکہ وہ حاکم کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ اس پر درزی طالب علم غصے میں آگیا‘ اس نے شیخ کو غلطی پر قرار دیا اور اس موقع پر ایسی باتیں کہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار جھلکتا ہے اور اس سے درزیوں کا کفر اور ان کے عقیدہ کی خرابی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

اس نے کہا: ’’جو شخص یہ کہتا ہے ہم کسی حاکم کو معبود سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہے۔ ہمارا تو عقیدہ لاالہ الا اللہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد‘ احد اور اکیلا ہے‘ بے نیاز ہے‘ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا‘ نہ ا سکا کوئی ہم سر ہے۔‘‘

ہمارے مذہب میں تو یہ (عقیدہ) ہے جو ہر کسی کو معلوم ہے کہ اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں‘ اس کا ادراک ہو سکتا ہے‘ نہ ا س کا کوئی وصف بیان کیا جاسکتا ہے۔ وہ بیٹھا ہے نہ کھڑا ہے‘ نہ جاگتا ہے نہ سوتا ہے۔ اور ارواح اور عدو سے پاک ہے‘ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگا‘ تاکہ اس پر سچا اور صحیح ایمان لایا جاسکے۔ وہ ان پر اپنی حجت قائم کرنے کے لئے ان سے انس کا اظہار کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی کیفیت کا ادارک کرنے سے عاجز ہیں اور اپنی عقلوں کی طاقت سے اس کی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کو دیکھنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص آئینے میں اپنی صورت دیکھتا ہے۔ جناب امام اکبر صاحب! آپ دیکھتے نہیں کہ جب آپ آئینے کی طرف دیکتھے ہیں تو آپ کو آئینے میں آپ کی صورت جیسی ایک صورت نظر نہیں آتی ہے؟‘‘

شیخ نے کہا: ’’ہاں‘‘ درزی طالب علم نے کہا: ’’یہ صورت تمام انسانی صفات سے پاک ہے‘ وہ نہ کھاتی ہے‘ نہ پیتی ہے‘ نہ سمجھتی ہے نہ …نہ … ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم آئینے کی طرف دیکھتے ہیں تو اس میں اپنی صورت دیکھتے ہیں جو تمام صفات سے مجرد ہوتی ہے‘ اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کی صورت تمام صفات سے پاک نظر آتی ہے۔‘‘

تاریخی او رعلمی طور پر یہ حقیقت ہے کہ درزی فرقہ کے لوگ ’’حاکم عبیدی‘‘ کو پوجتے ہیں او راسے الٰہ (معبود) قرار دیتے ہیں اور ’’حاکم عبیدی‘‘ نے خود اپنی ربوبیت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے قریبی ساتھی‘ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلاتے تھے۔ اس درزی طالب علم نے اس کا انکار کرکے کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کلا میں تلبیس سے کام لیا ہے اور تردید کرتے ہوئے بھی ایسی باتیں کہہ گیا ہے جو کفر ہیں۔

اس نے کہا: ’’وہ شخص غلطی پر ہے جو کہتا ہے کہ ہم کسی حاکم کو معبود سمجھتے ہیں۔‘‘

اس میں اس نے ’’کسی حاکم‘‘ کی بات کی ہے۔ حالانکہ موضـوع بحث اس ’’عبیدی حاکم‘‘ کی عبادت اور الوہیت کا دعویٰ ہے جو مصر کا بادشاہ تھا۔

اس شحض نے اللہ کی تمام صفات کا انکار کرکے اسے آئینے میں موجود صورت سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اس کو دیکھنے والے کی مثال کیسے ہے جیسے کوئی شخص آئینے میں صورت دیکھتا ہے۔‘‘ اور کہا: ’’جناب امام اکبر صاحب… ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم آئینے کی طرف دیکھتے ہیں جو تمام کائنات سے مجرد ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اللہ کی صورت تمام صفاف سے پا ک نظر آتی ہے۔‘‘ ا س طرح اس نے اللہ تعالیٰ کو ایسی معدوم ہستی بنادیا ہے جس کا کوئی وجودنہیں۔

(۴)      شیخ نے کہا: ’’ہم تقمص (تناسخ) پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ایک قدیم فلسفی مذہب ہے جو فاطمیوں کے ظہور میں آنے سے پہلے بلکہ ظہور اسلام سے بھی پہلے موجود تھا۔ یہ مذہب شروع سے انسانوں کے ساتھ رہا ہے۔ بہت سے قدیم غالی فلسفی بھی اس کے قائل رہے ہیں‘ اس لئے دروز کا تقمص پر ایمان رکھنا کوئی عجیب بات نہیں۔ عجیب بات تو ہے کہ مسلمان تقمص کا انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے۔ اس کے بعد تقمص کے دلائل کے طور یہ دو آیتیں ذکر کی ہیں۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾...البقرة

’’تم کس طرح اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی‘ پھر وہ تمہیں موت دے گا‘ پھر تمہیں زندہ کرے گا‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹاے جاؤ گے۔‘‘

دوسری آیت ہے:

 مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ﴿٥٥﴾...طه

’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اوراسی میں تمہیں لوٹا دیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘

اور ایک مصنوعی حدیث پیش کی ہے کہ نبیa نے فرمایا:

(مَازِلَتُ أنْتَقِلُ إلَیْکُمْ مِنْ أَصْلاَبِ الْمُؤمِنِیْنَ إِٔلَی أَرْحَامِ الْمُؤْمِنَاتِ ِإٔلَی یَوْمِنَا ھٰذا…)

’’میں ٓج تک مومن مردوں کی پشتوں سے مومن عورتوں کے پیٹوں میں منتقل ہوتا رہا ہوں۔‘‘

یہاں اس درزی طالب علم نے اقرار کیا ہے کہ دروز تقمص یعنی تناسخ ارواح پر یقین رکھتے ہیں۔ اس عقیدہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی زندہ انسان یا حیوان مرتا ہے تو ا سکی روح کسی اور جسم میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہ دوسرا انسان یا حیوان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ وہ وہ عقیدہئہ قیامت پر ایمان نہیں لاسکتے‘ جس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہے اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔ وہ جزاوسزا اور حساب وکتاب کے قائل ہیںنہ جنت اور جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں جہاں قیامت کاذکر آیا ہے وہ اس سے امام کا ظہور مراد لیتے ہیں۔ جس طرح دروز کے خیال میں ’’حاکم ‘‘ پوشیہ ہوجانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب روح خواہشات نفسانی سے پرہیز اور علم وعبادت کے ذریعے صاف ہوجاتی ہے تو وہ اپنے اصلی گھر کی طرف لوٹ آتی ہے موت کے ذریعہ اسے کمال حاصل ہوتا ہے اور وہ بدن کے قیدوبند سے آزاد ہوجاتی ہے۔ البتہ جو روحیں ترقی نہیں کرسکتیں کیونکہ انہیں آئمہ معصومین سے ہدایت طلب نہیں کی‘ بلکہ ان سے دور رہیں‘ انہیں جسموں میں باقی رکھ کر عذاب دیا جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ جب کوئی ایسی روح مر کر ای ک جسم سے نکلتی ہے تو دوسرا جسم اسے لے لیتا ہے۔ اس کے لیے وہ مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ اس آیت کریمہ سے بھی استدلال کرتے ہیں:

كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ﴿٥٦﴾...النساء

’’جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم تبدیل کر کے انہیں دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘

قیامت سے امام کا ظہور مراد لینا کلام اللہ میں واضح تحریف ہے۔ اسطرح انہوں نے قرآن کے الفاظ کو عربی زبان کے اصل مفہوم سے الگ کردیا ہے‘ حالانکہ قرآن اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ تاویل قرآن مجید کیدوسری آیات کی صراحتاً مخالف ہے اور بے شمار صریح متواتر احادیث کے خَاف ہے جن میں قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنا‘ حساب و کتاب‘ جزاوسزا اور جنت جہنم کا بیان ہے۔

لہٰذا ان کی یہ تاویل صریح گمراہی اور صریح کفر ہے اور ان کا عقیدہ جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے کہ روحیں اپنے بدن تبدیل کرتی رہتی ہیں (عقیدئہ تناسخ)‘ محض وہم وگمان پر مبنی ایک خیال ہے جس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں‘ نہ اس کی تائید کسی نقلی دلیل سے ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عقیدہ قرآن سے ثابت ہے‘ سراسر جھوٹ ہے۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ… (تم بے جان تھے‘ پھر اس نے تمہیں زندگی بخشی) کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورت ابھی نہیں بنائی تھی اور تمہارے اندر روح نہیں ڈالی تھی اس وقت تم مردہ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے جسم میں روح ڈال کر تمہیں زندہ کیا۔ پھر جب تمہاری دنیا میں رہنے کی مقررہ مدت ختم ہوجائے گی تو تمہاری روحیں قبض کرکے تمہیں فوت کرلے گا‘ قیامت کے دن تمہارا حساب کرنے اور تمہیں جزا دینے کے لیے دوبارہ زندہ کرے گا۔

عرب کی جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے‘ اس کے مطابق تو اس کا صاف صریح مطلب یہی ہے۔ اور صحیح صریح احادیث سے بھی اس کی یہی وضاحت سامنے آتی ہے‘ اس سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب انسان مرتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم سے نکل جاتی ہے تو پھر اسے کسی اور جسم میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پیدا ہو کر اسی دنیا میں زندگی گزارے۔

اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ﴿٥٥﴾...طه

’’ہم نے اسی (زمین) سے پیدا کیا‘ اسی میں تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘

اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہیں اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہو‘ ھھر تم اسی زمین کی طرف لوٹ جاؤگے یعنی جب تم مروگے تو اس میںدفن ہوگ‘ اس کے بعد جب دوبارہ زندہ ہونے کا وقت آئے گا اور قیامت قائم ہوگی تو ہم تمہیں اسی زمین سے ۔کدہ کر کے نکال لیں گے۔ ان آیتوں سے تناسخ کا عقیدہ کشید کرنے کی کوشش کرنا تو من مانی تفسیر اور معنوی تحریف ہے جس کی تائید عربی زبان سے نہیں ہوتی اور قرآن وحدیث کی صریح نصوص اس کی تردید کرتی ہیں‘ تمام اہل ایمان علماء کا اجماع اس کے برعکس ہے۔

باقی رہی حدیث جو انہوں نے ذکر کی ہے تو اس کا پتہ حدیث کی مشہور کتابوں میں سے کسی میں نہیں ملتا اور مختلف زبانوں میں کافر طبقات کا وجود اس حدیث کے جعلی ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ نبیﷺ اپنے آباؤاجداد کے ہر طبقہ میں مومن مرد کی پشت اور مومن عورت کے پیٹ میں منتقل نہیں ہوئے۔ بلکہ ان میں سے بعض مومن تھے مثلاً ابراہیم اور اسماعیل﷤ اور بعض کافر تھے (مثلاً آزر) پس یہ حدیث موضوع ہے یعنی کسی نے جھوٹ گھڑ کر اللہ کے رسول a کی طرف منسب کردیا ہے۔ اسی طرح آیت مبارکہ:

كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ...﴿٥٦﴾...النساء

’’جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم تبدیل کر کے انہیں دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘

یہ واضح طور پر کافر جہنمیوں کے بارے میں ہے کہ قیامت کے دن انہیں مسلسل عذاب ہوتا رہے گا۔ یہ کسی بھی طرح اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ جب کوئی انسان دیا میں مرتا ہے تو اس کی روح اس کے جسم سے نکل کر کسی اور جسم میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ وہ جسم ا س کے لیے قید اور عذاب کا باعث بنا رہے۔ اس آیت کی تفسیر اس انداز میں کرنا صریح تحریف بلکہ آیات قرآنی سے مذاق کے مترادف ہے۔

اس مکالمہ کے آخر میں درزی نے لکھا ہے کہ نام نہاد شیخ رافعی نے اعتراف کیا ہے کہ دروز ایک اسلامی فرقہ ہے‘ یہ اعتراف یقینا ایک خیالی اعتراف ہے جو ایک فرضی تصوراتی شیخ نے کیا ہے۔

اگر ہم کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ واقعی کسی شیخ نے کسی درزی طالب علم سے بحث کی ہو اور ان دونوں میں یقینا یہی بات چیت ہوئی ہو‘ تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس بات چیت سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے‘ وہ صحی ہے‘ کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اپنے موقف میں سچا ہوتا ہے لیکن کم علمی اور مناظرہ میں کمزوری کی وجہ سے شکست کھا جاتا ہے۔ لہـٰذا اس کا ہار مان لینا مناظرہ کے موقف کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہوتا‘ نہ اس سے اس کا دعویٰ اور عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔

دوسرے مکالمہ میں جھوٹ اور فریب کی وضاحت

پمفلٹ میں دوسرے مکالمہ کا ایک فریق انکے دعوے کے مطابق ایک سنی عالم ہے‘ جس کا نام ’’شیخ الحق حسینی‘‘ ہے۔ جو کسی کالج میں شعبہ علوم شرقیہ کا سربراہ ہے۔ دوسرا فریق دروز کے مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک پروفیسر ہے جس کا نام ’’ابوحسن زیدان‘‘ ہے۔ اس مکالمہ میں اس شخص نے کچھ سوال کئے ہیں جسے سنی ظاہر کیا گیا ہے اور دروزی ان کے جواب میں دیتا ہے۔ ان سوالات اور جوابات کا اسلوب بڑا گھٹیا‘ زبان عربی قواعد کے لحاظ سے کمزور اورمطالب پھس پھسے‘ مجمل اور غیر تعلق نہیں اور مناظرہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں‘ نہ اس کے نتائج قابل توجہ ہیں۔ ان کی پوری بات چیت یہاں درج کی جاتی ہے۔

سوال۱:   فرضی سنی نے کہا: ’’تمہارا دین کیا ہے؟‘‘

درزی نے جواب دیا: ’’ہمارا دین اسلام ہے۔‘‘

ہم گذشتہ سوالات میں واضح کرچکے ہیں کہ درزی فرقہ والے مسلمان نہیں۔ بلکہ وہ یہودونصاریٰ سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ آئندہ سوالوں میں درزی نے جو جوابات دئیے ہیں اور جس طرح اپنے عقائد کی وضاحت کی ہے اور ارکان اسلام وغیرہ کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں۔

سوال۲:  تمہارا مذہب کیا ہے؟

جواب:   ’’ہمارا مذہب اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہa کی رسالت کا اقرار ہے اور یہ اسلام میں تقیہ والے مذہب میں سے ایک ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کا مذہب تقیہ ہے۔ اس اقرار میں اس نے سچ کہا ہے۔ واضح رہے کہ عقیدہ‘ قول اور عمل میں منافقت‘ دھوکے اور فریب کا نام ہے اور اس سوال کے جواب میں دروزی نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ اس نے کہا کہ دروز کا مذہب اللہ کی توحید اور رسول اللہ کی رسالت کا اقرار ہے لیکن ان کا معبود جس کی توحید کے وہ قائل ہیں اور جس کی عبادت کرتے ہیں وہ مصر کا حکمران ’’حاکم عبیدی‘‘ ہے اور جس رسول کو مانتے ہیں وہ حاکم کا بھیجا ہوا مبلغ ’’حمزہ بن علی بن احمد فارقی حاکم درزی‘‘ ہے جس کو اس نے اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلائے کیونکہ اسی کو فاطمی حاکم نے ’’رسول‘‘ کا لقب دیا تھا۔ جواب کا یہ انداز تقیہ کی واضح ترین تفسیر اور سچی عملی مثال ہے۔

سوال:    ’’نہ سنی نہ شیعہ بلکہ ان فرقوں میں سے ایک ہیں جن کی طرف رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے:

(سَتَنْقَسِمُ أُمَّتِى مِنْ بَعْدى ِإلَی ثَلاَثَة وَسَبْعِیْنَ فِرْقَة)

’’میری امت میرے بعد تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے اجمال سے کام لیا ہے۔ اس نے اپنے فرقہ کے سنی یا شیعہ ہونے سے انکار کیا ہے لیکن اس کی حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا‘ بلکہ مبہم جواب دیا ہے کہ وہ ان فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جن کی طرف رسول اللہﷺ نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے:

(سَتَنْقَسِمُ أُمَّتي مِنْ بَعْدي ِإلَی ثَلاَثَة وَسَبْعِیْنَ فِرْقَة)

اس جواب میں اس نے عربی زبان میں لغوی غلطی بھی کی ہے‘ حدیث میں تحریف بھی کی ہے اور سائل کو دھوکا بھی دیا ہے اسے کوئی واضح اور دوٹوک جواب نہیں دیا او ریہ جھوٹ بھی بولاہے کہ وہ شیعہ نہیں۔ کیونکہ وہ فرقہ باطنیہ کی قرامطہ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں‘ جو غلو کرنے والے شیعہ کا بدترین فرقہ ہے۔

سوال۵:  نماز کیسے ہوتی ہے؟‘‘ (یعنی اس کا طریقہ کیا ہے؟)

جواب:   ’’جب ہم میت پر نماز (جنازہ) پڑھتے ہیں تو ہم قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں‘ لیکن عمومی نماز ذکر کا حلقہ ہے۔‘‘

چوتھا اور پا نچواں سوال غیر واضح ہے اور ناقص بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوالات کو عمداً اس انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ درزی پہلے مجمل جواب دے سکے اور ثانیاً اصل جواب سے فرار اختیار کرکے نماز کے مفہوم میں تحریف کرسکے اور اس نے ایسا ہی کیا ہے۔ اس نے کہا: ’’ہم نماز پڑھتے ہیں کیونکہ نماز واجب ہے اور اس لئے کہ وہ بندے اور خالق کے درمیان تعلق کو مظبوط کرتی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ وہ اس چیز کے بیان میں بھی موضوع سے ہٹ گیا ہے‘ کہ نماز سے کیا مراد ہے؟ (اور عام نماز کے بجائے نماز جنازہ کی بات شروع کردی ہے)۔ اس نے کہا:’’جب میت پر نماز پڑھتے ہیں تو قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں۔‘‘

نمازیں اس انداز سے پڑھنے کا منکر ہے جس طرح ہمیں جناب محمد رسول اللہa نے سکھایا ہے۔ اسی طرح پہلے سوال کے جواب میں اس نے جو کہا تھا کہ ہمارا دین اسلام ہے‘‘ اس کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا۔

سوال۶:  ’’کیا تم نماز کے وقت رکوع کرتے ہو؟‘‘

جواب:   ’’ہمارے ہاں رکوع نفل ہے۔‘‘

سوال:    ’’کیا تم نماز کے وقت سجدہ کرتے ہو؟‘‘

جواب:   ’’ہاں‘ ہم سجدے کرے وقت سجدہ کرتے ہیں کیونکہ یہ فرض ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘ چھٹا اور ساتواں سوال بھی ناقص اور غیر واضح ہیں۔ اس کے باوجود دروزی نے رکوع کی فرضیت کا انکار کیا ہے اور کہا ہے وہ نفل ہے۔ سجدے کے فرض ہونے کا اقرار کیا ہے لیکن اس کی کیفیت کو واضح نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سائل اور جواب دینے والے میں پہلے سے گٹھ جوڑ ہے۔ یا سوال کے جواب میں کہی ہے کہ ’’ہمارا دین اسلام ہے‘‘ کیونکہ بدایۃ معلوم ہے۔ لہٰذا یہ شخض نص اور اجماع کی روشنی میں جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔

سوال۸:  ’’کیا آپ لوگ روزوں کے مہینے میں روزے رکھتے ہیں؟‘‘

جواب:   ’’ہاں‘‘ بعض لوگ‘ خصوصاً معمر افراد روزے رکھتے ہیں‘ لیکن ہمارے عرف میں ظاہر روزہ نفل ہے اور حقیقی روزہ یعنی خود کو حرام کاموں سے بچانا لازمی فریضہ ہے‘ جو زندگی بھر کے لیے خاص اوقات میں نہیں۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی حکم عدولی کرتے ہوئے ظاہری روزہ کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

اس آٹھویں سوال کے جواب میں دروزی نے رمضان کے فرض روزوں کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ظاہری روزہ نفل ہے‘‘ اور حقیری روزے کا مطلب نفس کو حرام سے بچانا بتایا ہے اور یہ اسلام کی بدیہی تعلیم کا انکار ہے اور قرآن کے ذمہ سے ساقط کردیا ہے۔ یہ انکار نص اور اجماع کی روشنی میں صریح کفر اور ارتداد ثابت ہوتا ہے۔ اور اس سے اس کے اس دعویٰ کی تردید ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کا دین اسلام ہے۔

سوال۹:  ’’کیا آپ لوگ حج کرتے ہیں؟‘‘

جواب:   ’’ہمارے ہاں حج بھی نفل ہے کیونکہ آیت کریمہ فرماتی ہے:

﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا... ٩٧﴾...آل عمران

’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہیں بیت اللہ کاحج فرض کر دیا ہے یہاں مَنِ اسْتَطَاعَ کے لفظ سے ان لوگوں کے لئے کھلی گنجائش ثابت ہوتی ہے جو فریضئہ حج ادا نہیں کرسکتے۔‘‘

نویں سوال کے جواب میں بھی اس نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جس طرح رمضان کی فرضیت کا انکار کیا تھا۔ اسی طرح حج کے فریضہ کا بھی انکر کیا ہے۔ اس نے کہا ہے’’ہمارے ہاں حج نفل ہے‘‘ اس طرح اس کی فرضیت کا انکار کیا ہے اور یہ کفر ہے کیونکہ یہ دین کی بدیہی چیز کا انکار ہے۔ پھر اس نے آیت لاکر دھوکا دیا ہے جو طاقت رکھنے والے پر حج کی فرضیت کو صراحت کے ساتھ ثابت کرتی ہے۔ گنجائش تو اس کے لئے ہے جو خودحج کرسکتا ہو نہ کسی کو نائب بنا کر فریضہ حج سے سبکدوش ہوسکتا ہو۔ اس سے پہلے سوال میں کہی گئی اس بات کی بھی تردید ہوتی ہے کہ دروز کا دین اسلام ہے۔

سوال۱۰: ’’کیا تم میں سے کسی نے مکہ کا حج کیا ہے؟‘‘

جواب:   ’’ہاں ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی ہے۔‘‘

اس (دسویں) سوال میں بھی ابہام اور نقص ہے جس کا مقصدجواب دینے والے کو بھاگنے کا راستہ دینا اور بات پلٹنے کا مقع مہیا کرنا ہے اور ج واب دینے والے نے بھی مجمل جواب دیا ہے جس کامطلب مکہ عام سفر بھی لیا جاسکتا ہے یعنی کسی بھی شہر میں سیروتفریح کے لئے جاتے ہیں۔ اسی لئے اس نے کہا:’’ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مکہ اور مدینہ کی زیارت کی ہے۔‘‘ یہی باطنیہ اور قرامطہ کا دین ہے۔ ان کا عادت بھی فریب اور تقیہ کی ہے جس طرح کہ پہلے بیان ہوا ہے۔

سوال۱۱: ’’تم لوگ میت کی نماز جنازہ کیسے پڑھتے ہو؟‘‘

جواب:   ’’ہم میت کی نماز جنازہ اہل سنت کی طرح شافعی طریقے پر پڑھتے ہیں‘ آپ کو لمبی چوڑی بحث کی مشقت سے بچانے کے لئے ہم آپ کی خدمت میں یہ کتاب پیش کرتے ہیں جو ’’عقل جلیل کے مشائخ‘‘ کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ وہ ہمارے توحیدی مذہب کا بلند ترین مرجع ہیں۔ اس کتاب سے آپ کو نماز جنازہ کے متعلق ہمارے مذہبی طریقوں‘ شادی کی دستاویزات تحریر کرنے ‘ وفات کی صورت میں میراث کے احکام ودیگر مسائل کا علم ہوگا۔‘‘ سائل نے اس کتاب کی ورق گردانی کی اور جواب دینے والے کو مخاطب کرکے کہا: ’’تم واقعی مسلمان ہو۔‘‘

اس سوال کے جواب میں جھوٹ بھی ہے اور تناقص بھی۔ کیونکہ تیسرے سوال کے جواب میں دروز کے اہل سنت میں سے ہونے کی مطلقاً نفی کرچکا ہے اور یہاں کہہ رہا ہے کہ وہ شافعی مذہب کے مطابق نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ حالانکہ امام شافعی اہل سنت میں سے ہیں پھر ان کی نماز شافعیؒ کے مذہب پر کیسے ہوسکتی ہے؟ پھر اس نے جواب کو واضح کرنے سے بھی گریز کیا ہے اور کسی مبہم کتاب کا حوالہ دے دیا ہے جس کا نام بھی نہیں بتایا‘ تاکہ لوگ اس کتاب کو پڑھ کر اس کے دعویٰـ کا سچ جھوٹ معلوم نہ کرسکیں کہ ان کے ہاں نماز جنازہ واقعتا شافعی مسلک کے مطابق ہے یا نہیں۔ پھر اس نے کہا ہے کہ اسی فرضی سنی عالم نے کتاب کی ورق گردانی کرنے کے بعد کہا: ’’تم واقعی مسلمان ہو‘‘ اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس قسم کی جعلی گفتگو میں اس قسم کے اعتراف کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ محض دھوکا‘ فریب اور دروزی مذہب کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔

اگر درز کا مذہب واقعی اسلام کے مطابق ہوتا تو وہ اس کا اظہار کرتا اور کتاب کا نام بتاتا تاکہ حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کی طرف رجوع کیا جاسکے۔ لیکن اسے رسوائی کا خطرہ محسوس ہوا‘ اس لئے حسب عادت کتاب کی وضاحت نہیں کی۔ اس فرقے کی یہی عادت ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔

سوال۱۲: ’’آپ لوگوں کے ہاں ترکہ (میراث) تقسیم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب:   ’’ہمارے ہاں ترکہ کی تقسیم کا طریقہ شرعی فریضہ کے مطابق ہی ہے جب کہ میت نے وصیت نہ چھوڑی ہو۔ البتہ جب اس نے وصیت چھوڑی ہو تو وراثت اس وصیت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ کیونکہ ہمارے ہاں وصیت فرض ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آیت مبارکہ:

﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ... ١١﴾...النساء

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے‘ مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے اور اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کہ بعد وصیۃ یوصی بھا أودین وصیت جو کی گئی ہو اس کے بعد اور قرض کے بعد۔‘‘

سوال:۱۳ ’’آپ کے ہاں وصیت کا کیا طریقہ ہے؟‘‘

جواب:   ’’صیت کاطریقہ ہے کہ انسان کو اپنے مال میں جس کے لئے چاہے وصیت کرنے کا پورا پورا حق ہے خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا نہ ہو‘‘۔

سوال۱۴: ’’اہل سنت لے مذہب میں تو وارث کے لئے وصیت کرنا منع ہے‘ پھرآپ کیوں وارث کے وصیت کرتے ہیں۔‘‘

جواب:   ’’ہم وارث کے کلئے وصیت کرکے اس آیت مبارکہ پر عمل کرتے ہیں:

﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ... ١٨٠﴾...البقرة

’’جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر اس نے مال چھوڑا ہے تو (اس پر) والدین اور اقارب کے لئے وصیت کرنا فرض کردیا گیا ہے۔‘‘

 اس آیت شریفہ سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ وصیت وارث اور غیر وارث سب کے لے جائز ہے اور ہم اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔

دروزی نے ان تین سوالوں کے جواب میں کہا ہے کہ ان کے ہاں وصیت شرعی فریضہ کے مطابق ہے لیکن اس کی تعین کسی وارث یا غیر وارث کے لئے سارے مال کی وصیت کر کے جائے تو ترکہ کی تقسیم میں وصیت کا اعتبار کیا جائے گا (شرعی اصولوں کا نہیں) حالانکہ شریعت نے اس کے برعکس صاف الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ وارث کے لئے وصیت جائز نہیں اور اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سوال کے جواب میں اس نے جھوٹ بولا ہے کہ دروز کا دین اسلام ہے۔

آیت مبارکہ: یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ … اور اس کے بعد والی آیت میں میراث کے شرعی طور پر مقرر حصوں کا بیان ہے اور مختلف وارثوں کے حصے تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی اس مقررہ حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو اللہ نے ہر وارث کے لے مقرر کردی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ اختیار باقی نہیں چھوڑ گیا کہ مذکورہ دو آیتوں کے مذکور واثوں کے متعلق وصیت کرنیں‘ نہ ہر وارث کے لئے مقرر حصہ میں ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کی قسمیں بیان کی ہیں اور ہر قسم کے وارث کا حصہ بیان کر دیا ہے اور ہمارے لئے اس پر عمل کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے ان آیات میں یہ بھی بتایا ہے کہ ترکہ وارثوں میں تقسیم کرنے سے پہلے میت کے ذمہ جو قرض ہے‘ وہ ادا کیا جائے گا اور ایک تہائی مال کی حد تک اس نے غیر وارث افراد کے لئے جو وصیت کی ہے اس پر عمل کیا جائے۔ جس طرح کہ نبیa نے اس کی وضاحت فرمادی ہے۔ لہٰذا دروزی نے ان دو آیتوں سے استدلال کرنے میں اجمال اور تلبیس سے کام لیا ہے اور ترکہ کی تقسیم میں وصیت سے جو مراد ہے اس کی غلط تشریح کی ہے اور تقسیم سے قبل تقسیم کے معاملے کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے سنت نبوی سے بالکل اعراض کیا ہے جس سے قرآن مجید میں موجود وصیت کا مطلق حکم مقید ہوجاتا ہے حالانکہ ا س کا لحاظ کرنا ضروری تھا اور اس مسئلہ میں اس نے مسلمانوں کے اجماع کی طرف بالکل توجہ نہیں کی اور غلط استدلال کرنے والے یوں ہی کیا کرتے ہیں کہ کلام کو مجمل رکھتے ہیں اور مخاطب کو شبہ میںڈال کر باطل کوحق کے رنگ میں پیش کرکے دھوکا دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ کج روی کا طریقہ اپناتے اور قرآن کے الفاظ کو صحیح معانی سے ہٹا کر خود ساختہ غلط مفہوم کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسی طرح قولی اور عملی طور پر جناب رسول اللہa کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور صحابہ کرام وائمہ دین کے اجماع کی مخالفت کرکے اپنے دل کی خواہش پوری کرتے اور اپنے جیسوں کی تائید کرتے ہیں۔

سوال۱۵: ’’کیا تم لوگ بیک وقت ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں رکھتے ہو؟‘‘

جواب:   ’’ہرگز نہیں‘ ہمارے مذہب میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں‘ کیونکہ قرآن مجید کی آیت ہے:

وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ﴿٨﴾...النبإ

’’اور ہم نے تمہیں جوڑے جوڑے پیدا کیا۔‘‘

اور:

﴿وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ... ٤٩﴾...الذاريات

’’ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا۔‘‘

اور:

﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا... ٣﴾...النساء

’’اور اگر تمہں ڈر ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک سے (نکاح کرو۔)‘‘

اور:

﴿أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ...١٢٩﴾...النساء

’’اور تم عورتوں میں کبھی انصاف نہیں کرسکو گے اگرچہ تم (انصاف ک) حرص کرو۔‘‘

چونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دوعورتوں میں عدل ممکن نہیں ا س لئے صاحب شریعت نے ہم پر ایک کے ساتھ رہنا واجب کردیا ہے۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۵) کے جواب میں اس چیز کا انکار کیا ہے جس کا دین میں وجود بدیہی ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کا جواز اور اپنے باطل مؤقف پر ان چیزوں سے دلیل لانے کی کوشش کی ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس نے ارشاد ربانی تعالیٰ: وَخَلَقْنٰکُمْ أَزْوَاجاً اور ارشاد ربانی تعالیٰ: وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْن سے استدلال کیا ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی تخلیق میں اپنی تکوینی سنت کو بیان کیا ہے کہ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جانداروں کی ہر نوع کو۔ خواہ وہ حیوانات ہوں یا نباتات‘ مذکر اور مؤنث پیدا کیا ہے۔ ہر ایک میں دو مقابل انواع پیدا کی ہیں تاکہ ان کے ملاپ سے نسل قائم رہے اور زندہ مخلوقات باقی رہیں اور مختلف فوائد حاصل ہوں۔ ان آیات کا تعددازدواج سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ لہٰذ ان سے متعدد بیویوں کے ممنوع ہونے پر استدلال کرنا تحریف اور قرآن کے الفاظ کو من مانا مفہوم دینے کے متراف ہے۔ باقی رہی آیت کریمہ:

﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ... ٣﴾...النساء

’’پس اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک سے (نکاح کرو) یا  جو (لونڈیاں) تمہاری ملکیت ہیں (ان سے جائز تعلق قائم کرو۔)‘‘

اس آیت کا ابتدائی حصہ صاف طور پر ایک سے زیادہ بیویاں جائز ہونے کی دلیل ہے جب کہ ان کے ساتھ رہنے سہنے‘ سلوک ا ور خرچ وغیرہ میں ظلم ہوجانے کا خطرہ نہ ہو اور یہ چیز ممکن ہے اور مرد کے بس میں ہے۔ باقی رہا فرمان الٰہی:

﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ... ١٢٩﴾...النساء

’’اور تم ہرگز عورتوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکو گے‘ اگرچہ اس کی حرص کرو‘ تو (ایک عورت کی طرف سے) بالکل ہی کنارہ کش نہ ہوجاؤ کہ اسے اس طرح چھوڑ دو جس طرح (درمیان میں) لٹکی ہوئی (ہوتی ہے)۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کی محبت او رقلبی میلان میں عدل ممکن نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے ساتھ بردباری کے مطابق وقت گزارنے اور اخراجات مہیا کرنے میں عدل نہیں ہوسکتا۔ اس نکتہ کی وضاحت نبی اکرمﷺ نے اپنے ارشادات سے بھی فرمائی ہے اور عمل سے بھی۔ چنانچہ آپﷺ نے متعدد خواتین سے نکاح کیا اور ان کے درمیا رہن سہن اور اخراجات وغیرہ کے امور میں پوری طرح انصاف فرمایا۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! جو کچھ میرے بس میں ہے اس میں تو میں نے یہ تقسیم کر دی ہے اور جو چیز تیرے قبضے میں ہے‘ میرے قبضے میں نہیں‘ اس میں مجھے ملامت نہ فرمانا۔‘‘

متعدد بیویاں کرنے کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا‘ حالانکہ قرآن مجید ان کی زبانوں میں نازل ہوا تھا اور وہ لوگ اس دروزی اور اس جیسے دوسرے خواہش پرستوں سے زیادہ قرآن مجید کو سمجھتے تھے۔ جبکہ یہ تو نصاریٰ اور ملحدین کے ہم قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بزعم خوش صنف نازک کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔

دروزی نے چوتھی آیت کے الفاظ میں تحریف کی ہے۔ صحیح آیت اس طرح ہیں:

وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ  اس نے آیت میں اپنے پاس سے الفاظ شامل کردئے ہیں۔

سوال۱۶: ’’کیا تمہارے نزدیک اطلاق جائز ہے۔‘‘

جواب:   ’’ہاں جائز اسباب کی بنا پر طلاق جائز ہے۔ البتہ جو شخص کسی جائز سبب کے بغیر یا مطلقہ کی رضا مندی کے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تمام املاک اور مال ودولت کا نصف پیش کرے۔ لیکن اگر طلاق عورت کے کسی جرم کی وجہ سے ہوئی ہے تو پھر عورت اپنی آدھی جائیداد اور دولت مرد کو ادا کرے گی۔‘‘

اس سوال کے جواب میں دروزی نے طلاق کو جائز تسلیم کیا ہے لیکن جائز اسلوب کی شرط لگائی ہے۔ لیکن چونکہ دروز کا اصول ہے کہ تقیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذہب کی اصل حقیقت کو پوشیدہ رکھا جائے اور مخالفین سے بات کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہیں‘ اس لئے یہاں بھی اس نے ان ’’جائز اسباب‘‘ کی وضاحت نہیں کی۔ پھر اس پر ایک اور گل کھلایا ہے کہ اپنے دل سے شریعت سازی کرتے ہوئے خاوند کو حک دے دیا کہ اگر اس نے باہمی رضا مندی کے بغیر جائز سبب کے بغیر طلاق دی تو بیوی کو آدھی جائیداد دے اور عورت پر بھی یہ واجب کردیا ہے کہ ا سکی کسی غلطی کی وجہ سے طلاق ہو تو وہ اپنی آدھی جائیداد خاوند کو دے۔ اسلام میں طلاق کے موقع پر خاوند اور بیوی کے جو حقوق رکھے گئے ہیں‘ یہ قانون کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح اس بات کی تردید کرتا ہے جو پہلے سوال کے جواب میں کہی گئی کہ ’’ہمارا دین اسلام ہے۔‘‘

سوال۱۷:            ’’سناہے کہ آپ تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ آپ کے اس عقیدہ کی بنیاد کیا ہے؟

جواب:   ’’ہاں ہم تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس عقیدہ کی بنیاد دوچیزوں پر ہے۔ ایک نقلی دلیل اور ایک عقلی دلیل۔ نقلی دلیل تو یہ آیت کریمہ ہے:

{کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ} (البقرہ۲؍۲۸)

’’تم اللہ کے ساتھ کس طرح کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا‘ پھر وہ تم کو موت دے گا‘ پھر وہ تم کو زندہ کرے گا‘ پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

اس آیت کریمہ اور بعض دوسری آیات کی تفسیر ہم اس عقیدہ کے مطابق کرتے ہیں۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان عدل کرنے والا ہے‘ پھر اس نے ان کے درمیان امیر‘ غریب‘ خوش قسمت‘ بدنصیب‘ خوبصورت اور بدصورت کا اتنا فرق کیوں رکھا؟ جب کہ لوگ اس دنیا میں نئے پیدا کئے جاتے ہیں‘ تو اس عظیم فرق کو دیکھتے ہوئے اور اس پختہ ایمان کی بنیاد پرکہ اللہ تعالیٰ انتہائی عادل ہے اور مذکورہ بالا آیت کی وجہ سے ہم تقمص (نتاسخ) کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۷) کے جواب میں دروزی نقطہ نظر کے مطابق تقمص(تناسخ = اواگون) کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کئے گئے ہیں۔ پہلے مکالمہ کے چوتھے پیراگراف میں تقمص کیمفہوم کی وضٓحت اور ان کے نقلی دلائل پر بحت ہچوکی ہے اور وہا ں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ تصور محض وہم گمان پر مبنی ہے۔ کیونکہ موت کے بعد زندگی‘ قیامت کے دن کی جزا وسزائ‘ ا سکی نوعیت وکیفیت‘ یہ سب کے سب وحی کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتے ہیں۔ ان کی تعیین میں عقل کا کوئی دخل نہیں۔ انہوں نے جو عقلی دلیل پیش کی ہے کہ اللہ کا عدل اور حکمت کامل ہے اور مخلوق کے کردار‘ اخلاق‘ اعمال اور روزی میں فرق ہے اور اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے کے لئے دوبارہ دنیا میں پیدا کرے تاکہ ہر جان کو اس کا بدلہ مل جائے اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ مرنے والے کی روح کسی اور بدن میں ڈال کر دنیا میں بھیجتا ہے تاکہ اس وجود میں اسے اسکی سزا مل جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا دلائل میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد روح کسی اور جسم میں داخل ہوجاتی ہے‘ بلکہ یہ صرف ظن وتخمین ہے۔ اس جزاوسزا کی صحیح تفصیل اور کیفیت قرآن وحدیث کی نصوص میں موجود ہے۔ کہ یہ جزا اور سزا اس دنیا کے خاتمے کے بعد ایک اور دن میں ملے گی جس کا نام حشر (قبروں سے اٹھ کر جمع ہونے) اور قیامت (موت سے اٹھنے) کا دن ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کے کسی خاص عمل کا بدلہ دنیا میں جیسے چاہتے ہیں دے دیتے ہیں‘ لیکن اس طرح نہیں جس طرح دروزیوں نے تناسخ کے عقیدہ میں متعین کردیا۔

سوال۱۸: ’’کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبیﷺ کے بعد خلافت کا حق علی سے زیادہ عمر‘ ابو بکر اور عثمان کا تھا یا علی کا حق ان سے زیادہ تھا؟‘‘

جواب:   ’’یہ چیز تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ ہے کہ عمریں متعین ہیں جس طرح آیت میں مذکور ہے:

{وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَائَ اَجَلُہَا} (المنافقون۶۳؍۱۱)

’’اللہ کسی جان کو مؤخر نہیں کرتا جب اس کا مقرر وقت آجائے۔‘‘

چونکہ ابوبکر‘ عمر او رعثمان﷜ علی﷜ کی زندگی میں فوت ہوئے ہیں اس لئے اگر نبی کریمa کے بعدعلی خلیفہ بن جاتے تو ابوبکر‘ عمر اور عثمان ان کی زندگی میں فوت ہوجاتے اور اس طرح کہ امت سے متعلق اپنا کردار ادا نہ کرسکتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ (ان میں سے) ہر ایک اپنے اپنے وقت میں امت کی خدمت کا فرض ادا کرے اور یہ سب اللہ کی تقدیر کے مطابق تھا۔‘‘

دروزی نے سوال (۱۸) کا جواب دینے سے پہلو تہی کی ہے اور ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ کر تقیہ کرلیا ہے جس طرح اس کی اور اس کی قوم کی یہ عادت ہے کہ غیروں سے اپنے مذہب کی حقیقت چھپالیتے ہیں۔ پھر حضرت علی﷜ کی خلافت خلفائے ثلاثہ﷢ کے بعد ہونے کا ایک خود ساختہ فلسفہ بیان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ تینوں علی سے پہلے فوت ہوجائیں گے اس لئے ان کی خلافت علی سے پہلے کر دی تاکہ ہر کوئی امت کی خدمت میں اپنا کرداد ادا کرسکے‘ اس لئے اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ خلافت اس معروف تربیت سے واقع ہو۔ اس فلفسلہ میں اصل سوال کے جواب سے گریز کیا گیا ہے۔ سوال تو شرعی حکم کا تھا اس نے واقعاتی ترتیب کی حکمت بیان کردی۔ اس کے باوجود اس کا یہ جواب اس عقیدہ کے خلاف ہے جو وہ خلفائے ثلاثہ کے متعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ تو اصحاب ثلاثہ﷢ کو برا بھلا کہتے ہیں اور علی کو معبود مانتے ہیں۔ لہٰذا یہ پورے کا پورا جواب تقیہ کا عملی نمونہ اور ہیرا پھیری پر مشتمل ہے اور اس کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خلفائے ثلاثہ﷢ کا حضرت علی﷜ سے پہلے خلیفہ بننا ان کی فضیلت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک تکوینی معاملہ تھا اور یہ تصور اس عقیدہ کے برعکس ہے جس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔

سوال۱۹: ’’کیا تم لوگ ابو بکر‘ عمر‘ عثمان اور علی کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل مانتے ہو؟‘‘

جواب:   ’’ہاں! لیکن اس کے باوجود ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں کہتے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ علی ان سے اعلیٰ ہیں۔ کیونکہ رسول اللہa نے حجۃ الوداع میں خطبہ کے دن فرمایا تھا:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ‘ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں‘ اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے‘ تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

دروزی کے اس سوال (۱۹) کے جواب میں تناقص پایا جاتا ہے اور تینوں خلفائے راشدین جناب ابو بکر‘ عمر اور عثمان﷜ کی فضیلت کا انکار بھی ہے۔ پہلے اس نے کہا : ’’ہاں‘‘ یعنی ہم خلفائے اربعہ کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل ماتنے ہیں۔‘‘ پھر کہا: ’’ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں سمجھتے۔‘‘ اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں کائنات میں کسی ایک سے بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ پھر اس نے کہا علی﷜ ان سب سے افضل ہیں ﷢ حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ خود حضرت علی﷜ نے حضرت ابو بکر اور عمر﷢ کو اپنے آپ سے افضل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ امت کا اجماع ہے کہ جناب ابوبکر اور عمر﷢ جناب حضرت علی﷜ سے افضل ہیں۔ اور اکثر علماء کے نزدیک حضرت عثمان﷜بھی ان سے افضل ہیں۔ علی﷜ کی فضیلت کی دلیل کے طور پر یہ حدیث ذکر کی گئی ہے:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ‘ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں‘ اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے‘ تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

اس حدیث کے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے یہ فرمایا:

’’یہ روایت کہ جس کا میں مولیٰ ہوں‘ علی بھی اس کا مولیٰـ ہے‘ حدث کی بنیادی کتابوں میں سے ترمذی کے سوا کسی میں نہیں ہے۔ وہاں بھی صرف اتنا ہی جملہ مروی ہے:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں‘ اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘اگلا جملہ ’’یا اللہ جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ… الخ‘‘

وہ حدیث میں نہیں۔ امام احمدl سے اس جملہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوںنے فرمایا: ’’یہ کوئی اضافہ ہے۔‘‘

یہ جملہ کئی لحاظ سے جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حق نبیﷺ کے سوا کسی فرد معین کے ساتھ لازم وملزوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہر بات میں اس کی اتباع بھی فرض ہوتی۔ (اور ہر بات صرف نبی کی ماننا فرض ہوتی ہے) اور یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ حضرت علی﷜ سے صحابہ کرام﷢ بلکہ خود ان کے متبعین کا کئی مسائل میں اختلاف ہوا‘ جن میں نص فریق ثانی کی موافقت میں دستیاب ہوئی۔ مثلاً اس عورت کا مسئہ جس کا خاوند فوت ہوجائے جب کہ یہ عورت امید سے ہو۔

اور یہ جملہ

(اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ)

’’اے اللہ! جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر…‘‘

واقعات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ صفین میں آپ کی حمایت میں جو لوگ آپ کے ساتھ مل کر لڑے انہیں فتح حاصل نہیں ہوئی اور کچھ لوگ آپ کی حمایت میں نہیں لڑے لیکن وہ (دوسرے موقعوں پر) فتح سے محروم نہیں رہے مثلاً سعد﷜ جنہوں نے عراق فتح کیا‘ آپ کی حمایت میں نہیں لڑے تھے۔ اسی طرح حضرت معاویہ﷜ کے حامی اور بنو امیہ جو خود حضرت علیb کے خلاف لڑتے رہے‘ انہوں نے کافروں کے بہت سے علاقے فتح کئے اور اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔

اسی طرح جملہ

(اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ)

’’اے اللہ! جو سے دوستی رکھے تو اس سے دوسرے رکھ اورجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘

یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن مجید نے بیان کیا ہے سب مومن بھائی بھائی ہیں حالانکہ وہ آپس میں لڑے بھی ہیں‘ ایک دوسرے پر زیادتی بھی کرتے ہیں اور باقی رہا یہ جملہ:

(مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ)

’’جس کا میں مولیٰ ہوں‘ اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘

بعض محدثین نے تو اسے ضعیف قراردیا ہے مثلاً امام بخاری وغیرہ نے اور بعض نے حسن کہا ہے۔ پس اگر نبیﷺ نے یہ جملہ فرمایا بھی ہے تو اس سے مراد ایسی دوستی نہیں ہوتی ہے اور ’’مولاہ‘‘ (دوستی) کا لفظ ’’معاداہ‘‘ (دشمنی) کے مقابلے میں بولاجاتا ہے اورظاہر ہے کہ غیرمسلموں کے خلاف مومنوں سے دوستی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سے ناصبیوں کی تردید ہوتی ہے۔‘‘ یہاں تک ابن تیمیہ کا کلام ہے۔

سوال۲۰:            ’’اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی آیت یا حدیث شریف پر ہے۔‘‘

جواب:   ’’ہم رائے اور قیاس پر عمل نہیں کرتے‘ بلکہ جس چیز کا ہمیں حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں‘‘

اس سوال اور جواب میں مذکور اعتراف کہ دروز کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی نہ کسی آیت یا حدیث پر ہے‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ساری گفتگو جعلی ہے اور اگر اسے حقیقی بھی فرض کر لیا جائے تو مسلمانوں کا ہر مناظر اہل سنت کی نمائندگی نہیں کرتا اور دروزی کا یہ دعویٰ کہ دروز رائے اور قیاس پر عمل نہیں کرتے‘ حقائق اس کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ میں الحاد اور عمل میں خواہش نفس کو دخل ہے اور اس جواب میں ہیرا پھیری اور تقیہ بھی ہے۔ اس نے کہا ہے: ’’ہمیں جس چیز کا حکم ملتا ہے ہم وہی کرتے ہیں‘‘ اس میںفعل مجہول کے صیضہ سے بات کی گئی ہے تاکہ یہ واضح نہ ہوسکے کہ حکم کس کی طرف سے ملتا ہے۔ کیا وہ حاکم بامرہ اور دوسرے (بقول ان کے) معصوم ائمہ کی طرف سے ہوتا ہے یا کسی اور کی طرف سے؟ اور اس میں تعجب نہیں کہ تقیہ ان کا امتیازی نشان ہے‘ ا س پر عمل کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ