کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام اور فقہائے کرام فرقہ اسماعیہ آغا خانیہ کے بارے میں‘ جن کے افراد مختلف علاقوں میں‘ خصوصاً پاکستان کے شمالی حصو ںمیں آباد ہیں۔ ہم ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور کچھ اقوال ذکر کرتے ہیں جن سے ان کے عقائد معلوم ہوتے ہیں۔
(۱) کلمہ: أشھد أن لا اله إلا اللہ‘ واشھدأن محمدا رسول اللہ‘ وأشھد أن أمیر المومنین علیا اللہ۔’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کو ئی معبود نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ہی اللہ ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے لئے کلمئہ توحیدوشہادت کے مقابلے میں ان کا یہ کلمہ ہے جسے وہ اسلام کا حقیقی کلمہ کہتے ہیں۔
(۲) امام: ان کا عقیدہ ہے کہ آغا خان شاہ کریم ان کا امام ہے‘ وہ زمین اور کائنات کی ہر شے کا مالک ہے‘ خواہ وہ خیر ہو یا شر‘ ان کا عقیدہ ہے کہ تمام جہان میں اسی کا حکم چلتا ہے۔
(۳) شریعت: وہ شریعت اسلامیہ کی اتباع کے قائل نہیں‘ بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ آغا خان ’’بولتا ہوا قرآن‘‘ ہے اور وہی حقیقی اصل قرآن ہے‘ وہی کعبہ ہے‘ وہی بیت العمور ہے‘ وہی واجب اتباع ہے‘ اس کے سوا کوئی واجب الاتباع نہیں۔ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ظاہری قرآن میں جہاں بھی ’’اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد آغا خان ہے۔
(۴) نماز: وہ پانچ نمازوں کے قائل نہیں‘ بلکہ ان کی جگہ تین وقت کی دعا کو واجب کہتے ہیں۔
(۵) مسجد: وہ مسجد کی بجائے ایک اور عبادت خانہ بناتے ہیں اور اسے جماعت خانہ کہتے ہیں۔
(۶) زکوٰۃ: وہ شرعی زکوٰۃ کے منکر ہیں‘ اس کی بجائے ہر قسم کے مال کا دسواں حصہ آغا خان کو دیتے ہیں‘ اسے ’’دشوند‘‘ کہتے ہیں۔
(۷) روزہ: وہ ماہ کے رمضان کے روزوں کے منکر ہیں۔
(۸) حج: وہ خانہ کعبہ کے حج کی فرضیت کے قائل نہیں‘ ان کا عقیدہ ہے کہ آغا خان کی زیارت ہی اصل حج ہے۔
(۹) سلام: ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے ان کا ایک الگ سلام ہے۔ سب وہ ایک دوسرے کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں ’’علی مدد‘‘ یعنی علی مدد دے۔ اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کے بجائے ’’مولا علی مدد‘‘ کہتے ہیں۔
یہ ان کے عقائد کا مختصر بیان ہے۔ اب ہم آپ سے چند سوالات عرض کرتے ہیں:
(۱) کیا یہ فرقہ اسلامی فرقوں میں سے ہے یا کفر کے فرقوں میں سے؟
(۲) کیا ان کے مردوں کا جنازہ پڑھنا جائز ہے؟
(۳) کیا انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز ہے؟
(۴) کیا ان سے شادی بیاہ کا تعقل قائم کرنا جائز ہے؟
(۵) کیا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے؟
(۶) کیا ان سے مسلمانوں والا سلوک کیا جائے؟
آپ سے اللہ تعالیٰ کے نام پر گزارش ہے کہ اس استفتاء کا جواب ارشاد فرمائیں اور مسلمانوں کے دلوں سے شکوک وشبہات دور فرمائیں۔ کیونکہ یہ لوگ اب تک اپنے عقائد پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اس لئے متقدمین علماء انہیں ’’باطنیہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اب انہوں نے اپنے عقائد ظاہر کردئے ہیں اور لوگوں کو سرعام ان عقائد کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو عقائد کے بارے میں گمراہ کرنا ہے اور مقاصد بھی ہوں گے جو ہمیں معلوم نہیں۔۱) یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی یا کسی اور شخص کی ذات میں حلو کیا ہے‘ خالص کفر ہے جو انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ اسی طرح یہ عقیدہ بھی کفر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی زمین وآسمان میں تصرف کرسکتا ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے:
’’بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا‘ وہ رات پر دن کو اوڑھتا دیتا ہے‘ (دونوں) ایک دوسرے کو تیزی سے طلب کرتے ہیں اور سورج چاند ستارے اس کا حکم کے تابع ہیں۔ خبردار! تخلیق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی‘ برکت والا ہے اللہ‘ جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
(۲) جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اس کے لئے محمدa کی شریعت سے نکلنے کی گنجائش ہے تو وہ کافر ہو کر اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ رسول اللہa کی شریعت یہ قرآن ہے جسے اللہ نے آپa پ روحی کے ذریعہ نازل فرمایا: ارشاد ہے:
’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا (واضح‘ یا تھوڑا تھوڑا) کرکے نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔‘‘
شریعت میں سنت نبوی بھی شامل ہے جو قرآن کی وضاحت اور تفصیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور ہم نے آپ پر قرآن صرف اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ انہیں وضاحت سے وہ باتیں سمجھا دیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں‘ اور ایمان لانے والے لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت (بنا کر نازل کیا ہے)۔‘‘
(۳۔۴) جو شخص اسلام کے کسی رکن کا انکار کرے یا دین کے کسی بدیہی واجب کا انکار کرے وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے۔
(۵۔۴) اگر اس جماعت کی یہی کیفیت ہے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے تو مذکورہ بالا فرقہ کے مردوں کا جنازہ پڑھنا یا انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں۔ ان سے نکاح کا تعلق قائم کرنا جائز ہے نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ مسلمانوں ولا معاملہ (برتاؤ) کرنا جائز ہے۔