وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو لوگ اس کے اعمال پر اعتراض کرتے ہیں اسے حق حاصل ہے کہ ان کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردے۔
اگر بوہر فرقہ کے بڑے پیشوا کی کیفیت یہی ہے جو مذکورہ بالا سوالات میں بیان کی گئی تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شرکیہ اعمال پر اعتراض کرنے والوں کا بائیکاٹ کرے بلکہ اس کا فرض ہے کہ ان کی نصیحت قبول کرے اور اپنی الوہیت کے دعویٰ سے اور ان اوصاف سے متصف ہونے کے دعوے سے توبہ کرے جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ مثلاً روح اور دل کا مالک ہونا اور اپنی عبادت کی دعوت دینا اور انہیں اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے غلو کی حد تک عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کا حکم دینا بلکہ جو لوگ اس کے طرح طرح کے کفر پر اعتراض کرتے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ اگر وہ ان کی نصیحت قبول نہ کرے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہa پر عمل نہ کرے تو اس سے‘ اس کی گمراہی سے اور اس کی ضلالت سے بیزاری کا اظہار کریں اور اس کے متبعین سے‘ اور اس جیسے دوسرے طاغوتوں اور طاغوت سے بھی برأت ظاہر کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ کی رسی کو تم سب ملک کر مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘
اور فرمایا:
’’تمہارے لئے اللہ کے رسول کی ذات میں عمدہ ترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘
اور فرمایا:
’’جو لوگ طاغوت کی عبادت سے بچتے اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں انہی کے لئے خوشخبری ہے۔ جو بات سنتے ہیں پھر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
’’ابراہیمg اور اس کے ساتھیوں میں۔ تمہارے لئے یقینا ایک بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا ’’بے شک ہم تم سے بھی بری ہیں اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو‘ ان سے بھی۔ ہم نے تمہارا (اور تمہارے دین) کا انکار کر دیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا ہے حتی کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ ہو۔‘‘