ہمارے شہر میں ایک مسجد کا امام طریقئہ تیجانیہ کا پیروکار ہے۔ بلکہ اس طریقہ کے ماننے والوں کا پیشوا ہے‘ وہ انہیں ورد دیتا ہے اور وہ مسجد میں ایک خاص حلقسہ بنا کر بلند آواز سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔ حلقہ کے درمیان سفید کپڑا بچھا ہوتاہے۔ وہ لوگ روزانہ فجر اور عصر کی نماز کے بعد یہ وظیفہ کرتے ہیں اور اسے ’’اسم ھلالہ‘‘ کہتے ہیں… ایک اور خاص ذکر جمعہ کے دن عصر کے بعد کیا جاتا ہے۔ ا سکا نام انہوں نے ’’وظیفہ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اس ذکر کے آخر میں ایک خاص ذکر پڑھتے ہیں جسے ’’حزب الحمد للہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی اوردوظائف ہیں۔
اس طریقہ کے پیروکاروں میں سے جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو اسے غسل اور کفن دے کر حلقہ کے درمیان رکھتے ہیں اور اس مذکورہ بالا ’’وظیفہ‘‘ پڑھتے ہیں۔ پھر میت کو اٹھا کر قبر میں ڈال دیتے ہیں۔ مذکورہ بالا امام غریب امیر ہر قسم کے افراد سے پیسے جمع کرتا ہے۔ پھر ہو رقم خانقاہ کے شیخ کے پاس لے جاتاہے۔ اس کا ایک اور کام بھی ہے۔ جب لوگ شیخ احمد تیجانی کی تعریف میں شعر پڑھتے ہیں تو یہ بھی ان کے ساتھ جھومتا ہے۔ اس کے علاوہ سیدی الحاج علی کی قبر جو ’’ادماسن‘‘ میں ہے اس کا طواف کرتا ہے اور اپنی حاجتیں پوری کروانے کے لئے بڑی عاجزی سے اس سے سوال کرتاہے۔ وہ ایک اور کام بھی کرتاہے اور وہ ہے ’’فدیئہ اخلاص‘‘ نیز وہ کہتے ہیں جو شخص یہ فدیہ اداکرے اس کی وجہ سے وہ قیامت کے دن گناہوں (کی سزا) سے چھوٹ جائے گا۔ یہ کام تیجانی فرقہ کے اماموں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ صرف اس شخص سے فدیہ وصول کرتے ہیں جو تیجانی طریقہ کاپیروکار ہو۔ اس فدیہ کی مقدار کم از کم آٹھ سو الجزائری دینا رمقرر ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس شخص کو امام بنانا جائز ہے؟اور کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟تیجانی فرقہ کفر اور گمراہی میں تمام فرقوں سے بڑھا ہوا ہے اور سب سے زیادہ انہوں نے دین میں ایسی بدعات ایجاد کی ہیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے نہ اس کے رسولﷺ نے۔ لہٰذا اس طریقہ پر عمل کرنے والے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔