سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(251) مسجد میں قبر کا حکم

  • 1449
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 2353

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد پہلے سے موجود تھی۔ قضاء الٰہی سے امام مسجد مولوی عبداللہ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ تو بعض لوگوں نے اسے مسجد میں دفن کرنے پر زور دیا مگر نمبردار اور بعض دوسرے لگ اس کے خلات تھے مگر زبردستی قبر بنا دی گئی بہت مدت کے بعد بارش کی وجہ سے قبر زمین میں دھنس گئی تو پھر اس قبر کو اکھاڑ کر از سر نو میت کے کرنگ کو غسل وغیرہ دے کر دوبارہ قبر پکی او رکچی اینٹ ملا کر بنا دی گئی۔ لہٰذا بادلائل اس مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم تحریر فرمایا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 حدیث میں ہے:« صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوها قبورا» ’’یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ‘‘ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھروں میں نماز نہ پڑھو گے تو وہ قبروں کے حکم میں ہوجائیں گے کیونکہ قبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبریں اور مسجدیں آپس میں ضدیں ہیں  ،  جمع نہیں ہوسکتیں ۔پس قبروں کو مسجدیں نہیں بنانا چاہیے او رمسجدوں کو قبریں نہیں بنانا چاہیے۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :«لعن الله الیهود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیاءهم مساجد» ’’خدا یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘

خدا کی شان جن کے مذہب میں اس مسئلہ میں زیادہ احتیاط تھی۔ وہی اب بے احتیاطی کرتے ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک میت کا جنازہ مسجد میں جائز نہیں کیونکہ میت کا مسجد میں داخل کرنا جائز نہیں۔ اب میت کا داخل کرنا تو کجا میت کو دفن کرنے لگ گئے ہیں گویا ہمیشہ کے لیے مسجد کو میت کا گھر بنا دیا ہے۔

پھر اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اگر کسی وقت مسجد کو فراخ کرنا پڑا تو قبر درمیان میں آئے گی اور نماز کی کتنی دقت ہوگی۔ نیز حدیث میں ہے۔ «لا تصلوا الیها» ’’قبروں کی طرف نمازنہ پڑھو۔‘‘ جب قبر درمیان میں آئی تو لامحالہ پچھلی صفوں کا منہ اس طرف ہوگا تو اس حدیث کا خلاف لازم آیا۔ اس کے علاوہ قبر میت کا گھر ہے او راس کے لیے وہ جگہ معین کردی گئی ہے او رحدیث میں ہے« لا یوطن احدکم فی المسجد کما یوطن البعیر فی الوطن (اوکما قال)» ’’یعنی مسجد میں تم سے کوئی ایک جگہ مقرر نہ کرے جیسے اونٹ اپنےباڑے  میں مقرر کرلیتا ہے جہاں قبر بنی ہے اگر اس کی وصیت میت نے کی ہے تو اس نے حدیث کا خلاف کیا۔ورنہ دفن کرنے والوں کے ذمہ اس کا گناہ ہے۔ زندہ اگر مسجد میں جگہ مقرر کرے گا تو نماز کے لیے کرے گا جو مسجد بنانے کی اصل غرض ہے اور دفن کے لیے کوئی جگہ معین کردینا تو گویا اس کو اس کی اصل غرض سے علیحدہ کردینا ہے او رپھر ہمیشہ کے لیے  ایسا کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا اس لئے فوراً اس قبر کو اکھاڑ دینا چاہیے اور اس کی ہڈیاں کسی دوسری جگہ دفن کردینی چاہیں۔«من رای منکم منکرا فلیغیرہ ل بیدہ الحدیث »’’یعنی بُری بات کو  فوراً بدل دینا چاہیے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص342 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ