سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) قبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم

  • 1447
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 1417

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالی شان بڑا قبہ ہے جس میں متعدد قبریں لکڑی کے جالی دار کٹہروں کے اندر محصور ہیں۔ اس قبہ کے برابر لائن میں علاہ دائیں طرف مسجد شریف ہے اس پربھی قبہ ہے او ربائیں طرف دوسرا قبہ ہے اس میں بھی قبریں ہیں۔ اس کا دروازہ بند ہوتا ہے او ران تینوں کے آگے ایک بڑا صحن ہے جوکہ تقریباً ایک جریب کا ہے جس کو متولی نے مسجد شریف کا حکم دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسجد کے برابر والے صحن کو امام چھوڑ کر درمیان قبر جس کا دروازہ کھلا ہوا ہے کے تھوڑا شمال کی طرف ہٹ کر کھڑا ہوکر نماز پڑھاتا ہے۔ سوا جمعہ اور عیدین کے نماز ہمیشہ ہوتی ہے ۔ جگہ تنگ ہونے سے امام قبوں کومتوجہ ہوکر کھڑا ہوتا ہے اور صفیں سارے صحن کی لمبائی پر بنائی جاتی ہیں کیا اس حالت میۃ امام اور مقتدیوں کی نماز جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 صورت مذکورہ میں نماز بالکل جائز نہیں۔ اس کی بابت بہت احادیث آئی ہیں ہم قدر ضرورت پراکتفا کرتے ہیں۔

(1)    «عن ابی سعید ان النبی صلی الله علیه وآله وسلم الارض کلها مسجد الا المقبره والحمام  رواه الخمسة الاالنسائي» (منتقٰی)  

’’یعنی زمین تمام مسجد ہے مگر قبرستان او رحمام۔‘‘

(2)  «عن ابی مرثد الغنوی قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لا تصلوا الی القبور ولا تجلسوا علیها رواه الجماعة الا البخاري و ابن ماجة»(منتقٰی)

’’یعنی  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو نہ ان کے اوپربیٹھو‘‘

(3)   «عن بن عمر قال قال  رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اجعلوا من صلوٰتکم فی بیوتکم ولا تتخذوها قبورا رواه الجماعة الا ابن ماجة» (منتقٰی)

’’ یعنی کچھ نماز (نفل) گھروں میں پڑھا کرو او ران کو قبریں نہ  بناؤ (اگر گھروں میں نماز نہیں پڑھو گے تو گویا گھر قبریں بن گئے۔‘‘

(4)   «عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لا تجعلوا بیوتکم مقابر ان الشیطان ینفر من البیت الذی یقرأ فیه سورة البقرة» (رواہ مسلم) (مشکوٰة کتاب فضائل القرآن)

’’ گھروں کو قبریں نہ بناؤ بے شک جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔‘‘

(5)   «عن عائشة ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال فی مرضه الذی لم یقم منه لعن الله الیهود و النصاریٰ اتخذوا قبورا انبیآء هم مساجد متفق علیه»(مشکوٰة)

’’رسول اللہ ﷺ نے اخیر بیماری میں فرمایا کہ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کومسجدیں بنا لیا۔‘‘

(6)   «عن جندب بنعبدالله البجلی قال سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قبل ان یموت بخمس وهو یقول ان من کانقبلکم کانوا یتخذون قبور انبیآءهم وصالحیهم مساجد الا فلا تتخذوا القبو رمساجد انی الهاکم عن ذالک »(رواہ مسلم  (منتقٰی)

’’جندب بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہﷺ کی وفات سے پانچ دن پہلے سنا۔ آپ فرماتے تھے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور بزرگوں کی قبروں کو مسجدیں بناتے تھے۔ خبردار تم قبروں کو مسجدیں نہ بناؤ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

(7)  «عن عائشه  قالت ان اُم حبیبه و اُم سلمة ذکر تا لرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کنیسة واتاها بالحبشة فیها تصاویر فقال ان اولٰئک اذا کان فیهم الرجل الصلح فمات بنوا علی قبره مسجدا وصوروا فیه تلک التصاویر اولٰئک شرار الخلق عندالله یوم القیٰمة»(مسلم)

’’اُم حبیبہؓ او راُم سلمٰہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک گرجا کا ذکر کیا جو حبشہ میں تھا اس میں تصویریں تھیں۔ رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا ان لوگوں میں جب کوئی شخص فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں اس قسم کی تصویریں کھینچتے یہ لوگ تمام مخلوق سے قیامت کے دن بدتر ہیں۔‘‘

(8)  «عن ابن عباس قال لعن  رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم  زائرات القبور و المتخذین علیها المساجد والسرج رواه ابوداؤد والترمذی والنسائی» (مشکوٰۃ)

’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے نیز قبروں پر مسجدیں بنانے والوں کو اور چراغ جلانے والوں کو لعنت کی ہے۔‘‘

اس قسم  کی احادیث بہت آئی ہیں ہم نے صرف آٹھ پر اکتفا کیا ہے۔ان سے معلوم ہواکہ قبرستان میں نماز جائز نہیں۔ سوال میں قبوں کے سامنے کا صحن مسجد کا صحن قرار دیا ہے مگربناوٹ اور قبوں کا راستہ بتلا رہا ہے کہ قبوں کے سامنے کا صحن مسجد کا نہیں۔ ہاں مسجد کے سامنے مسجد کا ہے ۔ پس قبوں کے صحن میں نماز بالکل جائز نہیں کیونکہ وہ قبرستان  کا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ نمبر 2 کی حدیث میں قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی ناجائز  بتلایاہے اورقبوں کے سامنےکے سامنے کے صحن میں کھڑے ہونے سے قبوں کی طرف منہ ہوتا  ہے او رقبہ سارا قبر کا حکم رکھتا ہے کیونکہ قبہ قبر کی شان کو دوبالا کرنے کےلیے ہوتا ہے تاکہ اس کی تعظیم زیادہ ہو۔ جیسے غلاف وغیرہ چڑھاتے ہیں خاص کر جب دروازہ کھلا ہو تو قبر بھی سامنے آجاتی ہے۔پس یہ دوسری وجہ ممانعت کی ہوئی ہو۔ اس میں مطلقاً قبر کی طرف نمازمنع ہے خواہ جس جگہ میں نماز  پڑھتا ہے وہ قبرستان کا حصہ ہو یا نہ ہو۔ پھر قبروں پر مسجدیں بنانا  ناجائز ہے جیسے نمبر 6، 7 کی حدیث میں ہے بلکہ بعض روایتوں میں آپ نے لعنت فرمائی ہے جیسے نمبر 5، 8 کی حدیث میں ہے۔ پس جب یہ مسجدیں ناجائز ہوئیں اور لعنت کا باعث ہوئیں تو ان میں نماز بھی ناجائز ہوئی اور ظاہر بات ہے کہ مسجدکے صحن میں نماز مسجد ہی میں ہے تو یہ بھی ناجائز ہوئی پس جب مسجد صحن مسجد میں نماز ناجائز ہوئی تو قبوں کے صحن میں کس طرح جائز ہوگی؟ بلکہ اگر قبوں کا صحن نہ ہو ۔ مسجد کا اور قبوں کا مشترک ہو تو بھی جائز نہیں کیونکہ عبادت میں ناجائز کی ملاوٹ ہو تو عبادت ناجائز ہوجاتی ہے۔

 پھر نمبر 4 کی حدیث میں فرمایا ہےکہ گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور گھروں میں قرآن پڑھنے کی ترغیب دی ہے مطلب یہ  کہ قبریں قرآن کی جگہ نہیں صرف دفن کے وقت میت کے سر کی طرف شروع سورہ بقرہ کا او رپاؤں کی طرف اخیر سورہ بقرہ کا پڑھنا آیا ہے او رزیارت کے وقت بعض ضعیف احادیث میں سورہ فاتحہ۔ قل ہو اللہ ۔ سورہ الھاکم ۔ سورہ یٰسین۔ آیۃ الکرسی پڑھ کرمردے کو بخشنے کاذکر آیا ہے۔ بعض روایتوں میں قل ہو اللہ گیارہ مرتبہ آیا ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے ۔ ان کے علاوہ کہیں ذکر نہیں بلکہ نمبر 4 کی حدیث سے ممانعت ظاہر ہوئی ہے خاص کر مجاور بن کر پڑھنا زیادہ بُرا ہے کیونکہ اس کا بالکل کسی حدیث میں ذکر نہیں جب قرآن کی یہ حالت ہے تو نماز کیسے جائز ہوگی جو زیادہ احتیاط والی عبادت ہے اور قرآن پربھی شامل ہے۔ قرآن باوضو۔بے وضو دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ اس کے لیے کندھوں کا ڈھانکنا ضروری نہیں۔ اس میں بات کرنی بھی جائز ہے۔قبلہ رُخ ہونا شرط نہیں اس قسم کے بہتیرے امور ہیں جو نماز کے لئے ضروری ہیں قرآن کے لیے ضروری نہیں۔پس نماز زیادہ محل احتیاط  ہے۔ اس کا قبرستان میں پڑھنا جہاں تھوڑا سا شبہ قبرستان کا ہو۔ وہاں اس کا ادا کرنا یااس جگہ کو مسجد کا حکم دینا  یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔

پھر نمبر3 کی حدیث میں گھروں کو قبریں بنانے سے نہی کی ہے او ران میں نماز پڑھنے کا حکم دیاہے۔ گویا جس گھر میں قبر ہو وہ ساراگھر نماز کے قابل نہیں رہتا تو قبے جو قبوں کی خاطر ہیں اور قبروں کی تعظیم اور ان کی شان کو دوبالا کرنےکے لیے  ہےبلکہ ایک طرح قبر ہی ہیں تو ان میں یا ان کے مستقل یامشترکہ صحن میں نماز کیونکر جائز ہوگی؟

پھر نمبر 8 کی حدیث میں قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں کو لعنت کی ہے اور مسجد میں نمازوں  کے لیے آنا یہ مسجدوں کی زیارت ہے اور عورتوں کوجماعت میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ چنانچہ اس کی بابت مشکوٰۃ وغیرہ میں بکثرت احادیث موجود ہیں پس جب عورتیں قبوں کے صحن میں نماز کے لیے آئیں تو وہ ملعون ہوگئیں تو نماز کس طرح جائز ہوئی؟

ایک اور مسئلہ :

اس حدیث سے ایک اور زبردست مسئلہ نکلا وہ یہ کہ ایسی زیارت گاہوں کو فوراً گرا دینا چاہیے کیونکہ ان زیارت گاہوں میں عموماً عورتیں آتی ہیں اور ان میں چراغ جلائے جاتے ہیں جو تمام لعنت کا باعث ہیں ۔ اگر یہ قبے او راس قسم کی زیارت گاہیں نہ ہوں تو نہ چراغ جلیں نہ عورتیں زیارت کو آئیں او رتمام کولعنت    سے رہائی ہو۔

گھر میں  دفن کا مسئلہ :

گھروں میں میت  دفن کرنے کی بابت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں جائز ہے اگرچہ وہاں نماز نہ پڑھ سکے لیکن دفن منع نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ گھر ہی  میں دفن ہوئے ہیں۔ بعض علماء گھر میں دفن جائز نہیں کہتے اور رسول اللہ ﷺ کی بابت یہ جواب دیتے ہیں کہ آپ کاخاصہ ہے کیونکہ مشکوٰۃ وغیرہ میں حدیث ہے نبی نے جہاں دفن ہونا ہوتا ہے وہیں اللہ اس کی جان قبض کرتاہے اور حضرت ابوبکرؓ او رحضرت عمرؓ کی تخصیص کی بھی بعض روایات آئی ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص337 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ