السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ طوطی حلال پرندہ ہے یا حرام ؟ بینوا توجرو۔ (سائل الحافظ محمد خاں مکان نمبر 26، گلی نمبر 2عبداللہ کالونی سرگودھا شہر )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طوطی یا دوسرے پرندوں کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں یہ ضابطہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہی پرندہ حرام ہوگا جس کے بارے میں کتاب وسنت میں نص موجود ہو ، یعنی اس کا نام لے کر اسے حرام کہا گیا ہو ، مثلاً : کوا، گدھ وغیرہ یا وہ پرندے جو کل ذی مخلب من الطیر کے عام ضابطہ میں آتا ہو ۔ یعنی ہر وہ پرندہ حرام ہو گا جو پنجے کے ساتھ شکار کرتا ہو یا پھر وہ پرندہ حرام ہو گا جس کو شرعاً مار دینے کاحکم موجود ہے ۔ اس ضابطہ کو ذہن میں رکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طوطی کے بارے میں شریعت میں ایسا حکم موجودنہیں جس میں اس کے نصاً حرام یا اس کے مار دینے کا ذکر موجود ہو ، اور یہ بات محقق اور طے شدہ ہے کہ طوطی ذی مخلب بھی نہیں ، یعنی پنجے سے شکار نہیں کرتا ۔ ہاں پنجے میں دبا کر کھاتا ضرور ہے ۔ بہر حال حیوة الحیوان للعلامه الدمیری ۔ میں طوطی کے بارے میں اختلاف مذکور ہے ۔ بعض کے نزدیک حلال ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے ۔ مگر حرام والا قول چنداں قوی نہیں ۔ حلال والا قول قوی اور صحیح ہے ۔ مزید تفصیل ابن قدامہ المغنی اور دوسری کتب متعلقہ میں ملاحظہ فرمائیں ، احقر کے نزدیک طوطی حرام نہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب