سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) موجودہ دور کے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں

  • 14465
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3049

سوال

(365) موجودہ دور کے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موجودہ دور کے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں ، کیاہم مسلمان کھا سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 واضح ہو کہ احکام کے لحاظ سے اسلام نے غیر  مسلم گروہوں کو دو فرقوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک اہل کتاب ، دوسرے عام غیر مسلم ، اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو کے وجود، رسالت اور وحی و الہام کے قائل ہیں اور کسی ایسے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہوں جن کی نبوت کی خود اسلام نے توثیق کی ہو ۔ ایسی قومیں دنیا میں دو ہی ہیں ۔ یہودی اور عیسائی ۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ا یمان رکھتے ہیں اور تورات کو کتاب اللہ مانتے ہیں ۔ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت کے قائل ہیں اور انجیل کو الہامی کتاب تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر یہ دونوں وہ شخصیتیں ہیں جن کو نبی ہونے کی خود قرآن شہادت دیتا ہے ۔ اس لئے ان دونوں کو ماننے والے اہل کتاب قرار پائے ۔ چاہے وہ حضرت عیسیٰ﷤ کو  ابن اللہ ہی کیوں نہ ٹھہراتے ہوں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق جو نرمی برتی ہے وہ جانتے اور بوجھتے ہوئے کہ ان کے عقائد و افکار حضرت مسیح کے بارے میں مبالغہ آمیز ہیں ، لہٰذا اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ...﴿٥﴾...المائدة

’’ کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہےاور یہاں طعام سے مراد بالاجماع ذبیحہ ہے ۔ ‘‘

حضرت ابن عباس﷜ ،ابو امامہ ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، عکرمہ عطاء ، حسن بصری، مکحول ، ابراہیم نخعی وغیرہ تابعین ، سدی مقاتل بن حیان جیسے اہل علم نے وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ سے ذبیحہ ہی بیان فرمایا ہے ۔ اسی پر اہل علم کا اجماع ہو چکا ہے کہ اہل کتاب (یہودو عیسائی ) کا ذبیحہ مسلمانوں کے لئے حلال ہے ۔ کیونکہ ان کے اعتقاد میں غیر اللہ کا ذبیحہ حرام ہے ؟ اور ذبیحہ پر اللہ کا ہی نام لیتے ہیں ، اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے عقائد رکھتے ہین جس سے منزہ اور پاک ہے ۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر ارقام فرماتے ہیں :

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو أُمَامَةَ وَمُجَاهِدٌ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةُ وَعَطَاءٌ وَالْحَسَنُ، وَمَكْحُولٌ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، والسُّدِّيُّ وَمُقَاتِلُ بْنُ حَيَّانَ: يَعْنِي ذَبَائِحَهُمْ، وَهَذَا أَمْرٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ، أَنَّ ذَبَائِحَهُمْ حَلَالٌ لِلْمُسْلِمِينَ، لِأَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ تَحْرِيمَ الذَّبْحِ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَا يَذْكُرُونَ عَلَى ذَبَائِحِهِمْ إِلَّا اسْمَ اللَّهِ، وَإِنِ اعْتَقَدُوا فِيهِ تعالى ما هو منزه عنه تَقَدَّسَ وَ تَعَالَى. (1) تفسیر ابن کثیر : ج2ص 22)

اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب سے مراد وہ یہود و نصاریٰ ہیں جن کے آباو اجداد رسول اللہ ﷺ کے عہد میں موجود تھے ، وہ چوہڑے جو تشکیل پاکستان کے موقع پر مسیحی نبے ہیں، وہ اہل کتاب ہرگز نہیں ، اسی طرح جو مسلمان عیسائی بنتا ہے وہ عیسائی ہزگز نہیں ، وہ مرتد اور واجب القتل ہے ، لہٰذا نسل درنسل آنے والے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے ۔ تاہم ان کے ذبیحہ کے حلال ہونے کے لئے تیں شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

اول یہ کہ ذبیح کے لئے ووہی طریقہ اختیار کیا گیا ہو جواسلام نے بیان کیا ہے۔

دوسرے اس پر واقعی اللہ کانام لیا جائے ۔ اگر اللہ کا نام نہ لیا جائے اور کسی اور کایاحضرت مسیح کا نام لیا جائے تو اب اس کا کھانا حلال نہ ہو گا ۔ (2) (الفقه على المذاهب الاربعة ج1ص 726)

تیسرے وہ واقعی اہل کتاب ہوں ، یعنی حقیقی معنوں میں رسالت اور الہام و وحی وغیرہ کے قائل ہوں ۔ مگر وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ہستی ، رسالت اور مذہب کے منکر ہوں تو چاہیے وہ رسماً یہودی و عیسائی ہی کیوں نہ کہلائیں ۔ حقیقت میں وہ اہل کتاب نہ ہو ں گے اور نہ ان کے ذبیحے مسلمانوں کے لئے حلال ہوں گے۔

ان تفصیلات پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یورپ میں لوگ اہل کتاب کہلاتے ہیں عموماً ان کے ذبیحے حلال نہیں ہوتے ۔ اول تو ان کی اکثریت الحاد اور دہریت کی قائل ہے اور مذہب الہام و وحی وغیرہ کی سخت منکر ہے ۔ وہ تو ان عقائد کا مذاق اڑاتی ہے اور مذہبی دنیا کے اپنے خیال میں تو ہماتی عقیدوں سے آزاد ہو جانے کی تلقین کرتی پھرتی ہے ۔

مزید برآں یہ کہ مذہب سے دوری کی وجہ سے ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھی ان کے ہاں متروک ہے ۔

پس اہل کتاب (یہود وعیسائی ) کا وہ ذبیحہ حلال ہے جو  اسلام کے مطابق دبیح کیا گیا ہو اور واقعی اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو ۔ یعنی کوئی یہودی یا عیسائی خود یہ وضاحت کرے کہ ہم نے اس کو اللہ کا نام لے کر شرعی طریقے پر ذبح کیا ہے یا کوئی دوسرا غیر مسلم اس طرح کی خبر دے اور اس کو جھٹلانے کے لئے کوئی واضح وجہ نہ ہو تو اہل کتاب کا ایسا ذبیحہ بلاشبہ مسلمانوں کےلئے حلال ہے ، ورنہ اجتناب کرنا چاہیے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص863

محدث فتویٰ

تبصرے