سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) مسجد کے پاس قبریں

  • 1446
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 1318

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسی مسجد میں جس کا نقشہ مندرجہ ذیل ہے۔ نماز جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حدیث میں ہے:

«عن ابی مرثد الغنوی قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لا تصلوا الی القبور ولا تجلسوا علیها رواه الجماعة البخاري و ابن ماجة» (منتقٰی)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو نہ ان پر بیٹھو۔‘‘

دوسری حدیث: میں ہے  :

«عن ابی سعید ان النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال الارض کلها مسجد الا المقبرة والحمام رواه الخمسة الا النسائي» (منتقٰی)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام زمین مسجد ہے مگر قبرستان او رحمام‘‘

تیسری حدیث: میں ہے:

« عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اجعلوا من صلوٰة تکم فی بیوتکم ولا تتخذوها قبوراً رواه الجماعة الا ابن ماجة» (منتقٰی)

’’رسول اللہ نے فرمایا: کچھ نماز گھروں میں پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ‘‘

چوتھی  حدیث : میں ہے :

«عن عائشة ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال فی مرضه الذی لم یقم منه لعن الله الیهود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاء هم مساجد» (متفق علیه ۔ مشکوٰة)

’’رسول اللہ ﷺ نے آخری بیماری میں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنایا۔‘‘

پانچویں حدیث: میں  ہے:

« عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لا تجعلوا بیوتکم مقابر ان الشیطان ینفرمن البیت الذی یقرأ فیه سورة البقرة  »(رواہ مسلم۔ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن)

’’اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جائے۔‘‘

پہلی حدیث میں قبروں کی طرف نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ سوال میں جس مسجد کا ذکر ہے۔ اگر اس کے سامنے کے دروازے کھلے ہوں تو نماز قطعاً حرام ہے کیونکہ قبریں سامنے ہیں۔ اگر دروازے بند ہوں تو بھی ٹھیک نہیں۔ دروازوں کا قبلہ رُخ ہونا شبہ ڈالتا ہے کہ مسجد قبرستان کے متعلق ہے۔ کیونکہ  دروازے قبروں کی خاطر رکھے ہیں۔ ایسی مسجد میں نماز ٹھیک نہیں کیونکہ چوتھی حدیث میں قبروں کو مسجد بنانے پر لعنت کی ہے۔دوسری حدیث میں  قبرستان میں نماز سے منع فرمایا ہے اوراس کے دائیں بائیں قبروں کا ہونا یہ بھی ا س بات کی تائید ہے کہ یہ مسجد قبرستان کا حصہ ہے۔ اگر بالفرض مسجد پہلے ہو او رقبریں پیچھے بنی ہوں تو بھی کچھ خلل آگیا کیونکہ  تیسری اور  پانچویں حدیث میں گھروں کو قبریں بنانے سے نہی کی ہے اور گھر میں قبر کی یہی صورت ہوتی ہے کہ گھر کی حدود اور صحن وغیرہ میں قبر بنا دی جائے۔ دائیں طرف قبر اسی قسم کی معلوم ہوتی ہے اور دوسری قبروں کا حال بھی مشتبہ ہے۔ اس لیے  ایسی مسجد میں نماز سے احتیاط کرنا چاہیے اگر قبریں یہاں سے ہٹا دی جائیں او رہڈیاں دوسری جگہ دفن کردی جائیں تو پھر نماز میں کوئی کھٹکا نہیں لیکن قبریں اس وقت ہٹائی جاسکتی ہے جب مسجد پہلے ہو کیونکہ  اس صورت میں یہ قبریں خلاف شرع ہوں گی جن کا ہٹانا ضروری ہوگا ورنہ مسجد کو یہاں سے ہٹانا چاہیے۔ ہاں اگر  مشرکوں کی قبریں ہوں تو ہر صورت میں ہٹائی جاسکتی ہیں۔ مسجدنبوی اس طرح بنی تھی۔ ہاں اگر قبریں حدود مسجد سے بالکل باہر ہوں او رمسجد قبرستان کےحصہ میں نہ ہو تو پھر ہٹانےکی ضرورت نہیں مگر قبروں اور مسجد کے درمیان دیوار بنا دینی چاہیے تاکہ کسی وقت اتفاقیہ مسجد کاکوئی دروازہ کھلا رہ جائے تو نظر نہ پڑے اگر قبل بعد کا علم نہ ہو تو پھر معاملہ مشتبہ ہے۔ احتیاط نہ پڑھنے میں ہے۔ کیونکہ نماز کامعاملہ نازک ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص336 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ