سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(354) داڑھی کی شرعی حیثیت

  • 14454
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1288

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کی شرعی پوزیشن کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ داڑھی انبیاء ﷤ کی سنت متوارتہ ہے ، جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے حضرت ہارون علیہ وعلی نبینا  السلام نے داڑھی بارے میں حضرت موسیٰ کو کہا تھا :

﴿ قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي... ﴿٩٤﴾...طه 

 ’’ ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ  قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةُ. (نسائی مع تعلیقات السلفیة : ج2 ص 269)

یعنی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دس چیزیں سنن انبیاء علیہ السلام سے ہیں ۔

1۔ مونچھیں کاٹنا ،

2۔ناخن اتارنا ۔

3۔انگلیوں کو گرہوں کو دھونا ۔

4۔داڑھی کو بڑھانا ۔

5۔مسواک کرنا ۔

6۔بغلوں کے بال اکھاڑنا ۔

7۔موئے زہار کا مونڈنا ۔

8۔ناک میں پانی چڑھانا ۔

9۔استنجاء کرنا ۔

10۔منہ کی کلی کرنا ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی فطرت ، یعنی سنت قدیمہ میں شامل ہے ۔ بلکہ داڑھی بڑھانے کاحکم ہے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضى الله عنهما  قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏  انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى ‏.‏ (2) ( ص875ج2 صحیح مسلم ص 129ج1)

کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اورداڑھی کو بڑھاؤ ۔یعنی پوری طرح بڑھنے دو صحیح مسلم کی ایک روایت اوفوا اللحی .

اور ابوہریرہ ﷜ لکھتے ہیں :

وأنه وقع عند ابن ماهان  ارجوا وجاء في رواية البخاري وفروا اللحى فحصل خمس روايات :  اعفوا وأوفوا   و ارخوا  و ارجوا  و وفروا  ومعناها كلها تركها على حالها هذا هو الظاهر من الحديث الذي تقتضيه ألفاظه . (3) ( نووی ص 129ج1)

کہ داڑھی بڑھانے کے متعلق احادیث صحیحہ میں اعفوا ، اوفوا، ارخوا، ارجوا، اور وفروا، پانچ الفاظ آئے ہیں اور ان سب کا معنی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ حدیث کے الفاظ کا بظاہر یہی تقاضا ہے ۔

ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی کو مونڈانا اور کترانا جائز نہیں بلکہ داڑھی کو مونڈانا مجوسیوں کا فعل ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم میں خالفوا المجوس کاحکم ہے اور کسی صحیح حدیث میں داڑھی کو کترانے کی اجازت نہیں آئی ۔ البتہ ترمذی میں عمرو بن شعیب بن ابیہ عن جدہ سے ایک روایت ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا ‏.(1) (ترمذی مع  تحفة الاحوذی : ص 11ج 4)

کہ رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی کو طول وعرض سے کاٹ لیتے تھے مگر یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے ۔ جیسا کہ خود امام ترمذی نے عمربن ہاروں راوی پر امام بخاری کی جرح نقل کی دی ہے :

هذا حديث غريب وسمعت محمد بن إسمعيل يقول عمر بن هارون مقارب الحديث لا أعرف له حديثا ليس له أصل أو قال ينفرد به إلا هذا الحديث. (2) (ترمذی مع تحفة الأحوذى ص11 ج4)

اما م عبدالرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں کہ عمر بن ہارون متروک راوی ہے ، بہر حال یہ حدیث ضعیف ہے اور قابل استدلال ہرگز نہیں ۔

ہاں صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مٹھی سے زائد بال کٹوا دیتے تھے ، اسی طرح حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ  حضرت عمر ﷜ نے مٹھی بھر سے زائد ایک آدمی کی داڑھی کاٹ دی تھی اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہ﷜ بھ مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ دیتے تھے ، تاہم علماء نے لکھا ہے کہ کم از کم مٹھی بھر داڑھی رکھنی واجب ہے اور مٹھی سے زائد کٹوانے والے کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا ۔ تاہم داڑھی نہ کٹوانا افضل ہے اور یہی اسلم ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص857

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ