السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ کہ مسمی محمد جیون ولد محمد عبداللہ قوم کمیار موضع ترمل کے تحصیل چونیاں ضلع لاہور مسمات خورشید بیگم دختر بگو قوم کمہار موضع داؤکے کھنیانہ تحصیل چونیاں ضلع لاہور جو کہ میری منکوحہ بیوی ہے کو بوجہ زبان دراز ، بدچلن ہونے کے طلاق دیتا ہوں ، میرا اس کے ساتھ اب کسی قسم کا کوئی تعلق از قسم ازدواجی حیثیت نہیں رہا ہے ، نوٹ میں نے یہ طلاق مورخہ 10-3-74 کو دی تھی اس سے پہلے میں نے کوئی طلاق نہیں دی ، کیا میں رجوع کرسکتا ہوں ۔ ﷾(سائل محمد جیون ولد محمد عبداللہ حال موضع اورپانہ ڈاکخانہ پکا سدھار تحصیل پاکپتن ضلع ساہیوال )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال بشرط صورت مسئولہ میں بشرطیکہ طلاق دہندہ کی یہ طلاق پہلی یا دوسری طلاق ہو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ۔ اور جس طلاق (یعنی وہ طلاق جو عدت کے اندر اندر واپس لے کر گھر آباد رکھنے کی شرعاً اجازت ہوتی ہے ) میں بالاتفاق عدت کے اندر رجوع کر لینا شرعاً جائز ہے کہ عدت پوری ہونے تک نکاح بحال رہتا ہے ۔ اور اگر عدت گزر جائے تو بلا حلالہ کے نکاح جدید کی شرعاً اجازت ہے ، قرآن مجید میں ہے ۔
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ﴿٢٢٩﴾...البقرة
کہ رجعی طلاق دو مجلسوں میں ہے پھر اس کے بعد یا اچھے طریقہ سے آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ اسے چھوڑ دینا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے امام ابن کثیر رقم طراز ہیں :
﴿ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾أي إذا طلقتها واحدة أو اثنتين, فأنت مخير فيها ما دامت عدتها باقية بين أن تردها إليك ناوياً الإصلاح بها والإحسان إليها, وبين أن تتركها حتى تنقضي عدتها فتبين منك. (1) (تفسیر ابن کثیر : ج1ص 272)
یعنی جب تو اپنی منکوحہ بیوی ایک یا دو طلاقیں دے ڈالے تو پھر تجھے عدت کے اندر اندر یہ اختیار حاصل ہے کہ اصلاح اور نیک سلوک کرنے کی نیت سے طلاق واپس لے کر اپنی اس بیوی کو ا پنے گھر آباد کر لے یا اس کو چھوڑ دے تاکہ اس کی عدت پوری ہو جائے اور وہ تیرے نکاح سے نکل جائے اور اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ کر سکے ۔
اس آیت کریمہ اور اس کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ رجعی طلاق کی عدت (تین حیض یا تین ماہ ) پوری ہونے تک نکاح قائم اور بحال رہتا ہے اور رجوع جائز ہوتا ہے مگر چونکہ سوال نامہ کی خط کشیدہ تصریح کے مطابق یہ طلاق مورخہ 10-3-1974ء کو دی گئی تھی ۔ اور آج 13-6-97ء یعنی 23برس اور تین ماہ گزر چکے ہیں ۔ لہٰذا نکاح کب کا ٹوٹ چکا ہے اور بیوی حبالہ عقد سے آباد ہو چکی ہے ، لہٰذا اب رجوع کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ، ہاں اب نکاح ثانی شرعاً جائز ہے قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ... ﴿٢٣٢﴾...البقرة
’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وه اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وه آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں۔‘‘
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب حضرت معقل بن یسار نے اپنی مطلقہ ہمشیرہ کو اپنے خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے سے روک دیا ۔
خلاصہ : بحث یہ کہ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں ایک رجعی طلاق شرعاً واقعہ ہوئی ہے اور چونکہ نکاح ٹوٹ چکا ہے کہ عدت کب کی پوری ہو چکی لہٰذا اب طلاق د ہندہ اپنی اس مطلقہ رجعی سے دوبارہ نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر سکتا ہے ۔ حلالہ کی قطعا ًَ ضرورت نہیں مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب