سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) بعداز عدت رجوع جائز نہیں

  • 14451
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1048

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں مسمی حاجی غلام محمد ولد فتح دین قوم کھوکھر گلی توے شاہ محلہ چوڑیگران شہر شیخوپورہ بحیثیت مسلمان اللہ کو علم و خبیر جان کر یہ بیان کرتا ہوں کہ آج سے تقریباً 8-10سال قبل میرے داماد محمد مشتاق ولد محمد مالک قوم پٹھان نے اپنی بیوی کشور سلطانہ دختر من مظہر کو تحریری طلاق لکھ دی تھی مگر ہمیں اس کی اطلاع نہیں دی ۔ پھر اس طلاق کے تقریباً 2سال بعد صلح ہو گئی اس دوسال کے عرصہ میں میری بیٹی میرے ہی گزر بسر کرتی رہی جب صلح ہو گئی تو بعد میں یہ راز کھلا کہ محمد مشتاق نے  تو دو سال پہلے تحریری طلاق دے دی تھی ۔ اب پھر اس نےعرصہ ڈھائی سال سے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا ہے ۔ اور سامان اٹھا کر چلا گیا ہے ۔

مزید یہ کہ گھر سے سامان لے جاتے وقت بھی اس نے متعدد لوگوں کو کہا کہ میں نے اپنی بیوی کشور سلطانہ کو طلاق دے دی ہے اور وہ گواہ اب بھی موجود ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ مشتاق نے آج سے ڈھائی برس پہلے ہمارے سامنے ’’ طلاق دے دی ہے ، کے الفاظ کہے تھے ۔ اب صورت مسئولہ آپ کے سامنے ہے ، لہٰذا کتاب وسنت کی روشنی میں بتلایا جائے کہ طلاق موثر خو چکی ہے یا نہیں ؟ شرعی فتویٰ صادر فرمایا جاوے۔ ( سائل حاجی غلام محمد ولد فتح دین قوم کھوکھر گلی توے شاہ محلہ چوڑیگراں شیخوپورہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال، یعنی اگر واقعی طلاق دہندہ محمد مشتاق ولد محمد مالک پٹھان نے اپنی بیوی مسمات کشور سلطانہ دختر غلام محمد کو تحریری طلاق لکھ دی تھی اور پھر اس طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تھا تو شرعاً یہ طلاق واقع ہوکر موثر ہو چکی اور مسمات مذکورہ اپنے شوہر کےحبالہ عقد سے آزاد ہوگئی تھی ۔ لہٰذا اس طلاق کے دو برس بعد ہونے والی مصلحت شرعاً ناجائز اور سراسر معصیت پر مبنی ہے ۔ اس کےبعد اس ناکام جوڑے کی ازدواجی زندگی گناہ کی زندگی قرار پائی ہے ۔ کیونکہ طلاق زبانی کلامی ہو یا تحریری ہو بیوی کو اطلاع دی جائے یا اطلاع نہ دی جائے شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔اب اس کی دلیل ملاحظہ فرمائیے :

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه  عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏  إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَىْءٍ‏.(1) (صحیح البخاری باب الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ  والکرہ والسکران والمجنون ج2ص 793، 794)‏

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے ، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے ۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دے دی تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا جب تک زبان سے نہ کہے ۔

2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ يَتَكَلَّمُوا أَوْ يَعْمَلُوا بِهِ ‏ ‏.‏(1) ( کتاب صحیح مسلم : باب تَجَاوُزِ اللَّهِ عَنْ حَدِيثِ النَّفْسِ، وَالْخَوَاطِرِ، بِالْقَلْبِ إِذَا لَمْ تَسْتَقِرَّ ‏‏ ج1 ص 77، 78)

ترجمہ وہی ہے جو اوپر لکھا جا چکا ہے ۔

ان دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جس طرح زبانی کلامی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اسی طرح طلاق تحریری بھی شرعاً معتبر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں :

وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ مَنْ كَتَبَ الطَّلَاقَ طَلُقَتِ امْرَأَتُهُ لِأَنَّهُ عَزَمَ بِقَلْبِهِ وَعَمَلَ بِكِتَابَتِهِ وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ وَشَرْطُ مَالِكٍ فِيهِ الْإِشْهَادُ عَلَى ذَلِك.(2) (فتح الباری شرح صحیح بخاری ج9 ص 316باب الطلاق فی الاغلاق و الکرہ والسکران والمجنون ، فتاوی نذیریه ج3ص 78)

اس حدیث صحیح سے استدلال کیا گیا ہے کہ جو اپنی بیوی کو طلاق لکھ کر دے تو اس بیوی کی پر طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اس نے دل سے طلاق کا ارادہ کیا اور لکھ کر عمل کیا۔ جمہور علمائے اسلام کا بھی یہی مذہب اور قول اور فتویٰ ہے۔

فضیلۃ الشیخ والمحقق المشہور السید محمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں :

والكتابة يقع بها الطلاق، ولو كان الكاتب قادرا على النطق، فكما أن للزوج أن يطلق زوجته باللفظ، فله أن يكتب إليها الطلاق. (3) (فقه السنة ج2 ص 219)

کہ تحریر سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ تحریر کرنے والا بولنے اور گفتکو کرنے پر قادر بھی ہو ۔

پس مذکورہ احادیث صحیحہ ،جمہور علمائے اسلام کےنزدیک تحریری طلاق شرعاً معتبر ہے۔ اگرچہ بیوی کو اطلاع نہ دی جائے ، تب بھی طلاق کی عدت تحریر کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے ۔

مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔ وقوع طلاق کے لئے طلاق نامہ کاعورت تک پہنچنا شرط نہیں ۔ صرف لکھنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ (4) ( فتاویٰ احسن الفتاوی ص 440۔ طبع کراچی )

خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے مطابق مسمات کشور سلطانہ دختر غلام محمد کو اس وقت ہی طلاق ہو گئی تھی جب اس کےشوہر نے وہ طلاق لکھی تھی ۔ اور طلاق کی عدت تین حیض ، تین ماہ یا بصورت حمل وضع حمل ہے ۔ چونکہ سوال نامہ کی تصریح کے مطابق اس طلاق کے 2برس بعد مصالحت ہوئی جب کہ طلاق کی عدت بہر صورت پوری ہو چکی تھی اور نکاح ٹوٹ چکا تھا ۔ لہٰذا یہ مصالحت رجوع کی مدت کےبعد وقوع پذیر ہوئی ۔ پس اگرچہ یہ مصالحت تجدید نکاح کے بغیر وقوع پذیر ہوئی ہے تو شرعاً معتبر نہیں ۔ اس غیر شرعی مصالحت کے بعد کی ازدواجی زندکی سراسر سفاح اور گناہ کی زندگی ہے ۔ اس بی بی کو اب کسی اور طلاق کی ہرگز ضرورت نہیں ۔ کیونکہ نکاح تو اس تحریری طلاق کی عدت پوری ہونے پر ٹوت گیا تھا ۔ یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ۔ غلط بیانی اور دروغ گوئی کی ذمہ داری شرعاً اور قانوناً سائل پر عائد ہو گئی ۔ مفتی کسی قانوی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص851

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ