السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جماعت ہوجانے کے بعد اگر دو چار آدمی آجائیں تو وہ اپنی علیحدہ جماعت کرا سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
منتقٰی میں ہے :
«عن ابی سعید ان رجلا دخل المسجد وقد صلی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم باصحابه فقالمن یتصدق علی ذافیصلی معه فقام رجل من القوم رواه احمد و ابوداؤد و الترمذي بمعناه» ( باب من صلی فی المسجد جماعة بعد امام الحی)
’’یعنی حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ جماعت سے فراغت کے بعد ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کون اس پر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے پس ایک شخص قوم سے کھڑا ہوا۔‘‘
مشکوٰۃ میں بھی یہ حدیث ہے۔ اس کےاخیر میں ہے۔
« فقام رجل فصلی معه (مشکوٰة باب ما علی الماموم من المتابعة و حکم المسبوق )
’’ایک شخص کھڑا ہوا پس اس کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مسجد میں نماز ہوچکی ہو۔ اس میں دوسری نماز بھی درست ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے ۔ جو نماز پڑھ چکے ان میں سے کوئی کرائے آنے والے سے نہ کرائے یہ حدیث سے ناواقفی پر مبنی ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے:
« لا تصلوا صلوٰة فی یوم مرتین» رواه احمد و ابوادؤد والنسائی (مشکوٰة باب من صلی صلوٰة مرتین)
اس حدیث میں دوبارہ نماز پڑھنے سے ممانعت آئی ہے۔ مگر باوجود اس کے دوسرے کو جماعت کا ثواب دلانے کی خاطر دوبارہ نماز جائز ہوگئی۔ تو باہر سے آنے والا جس نے نماز ابھی نہیں پڑھی اس کو بطریق اولی جائز ہوگئی او رجگہ بدلنے کی شرط کرنا یہ بے ثبوت بات ہے۔ مسجد سب یکساں ہے۔جہاں چاہے جماعت کرائے۔خواہ پہلی جگہ جماعت ہوچکی ہو یا دوسری جگہ ۔ اس جگہ یہ شرط کرنا امام مسجد میں آئے تو کرا سکتا ہے یہ بھی بے ثبوت ہے بلکہ اوپر کی حدیث میں اس کی تردید ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ جو اصل امام تھے۔ مسجد میں نہیں آئے ۔ بلکہ ایک او رامام آیا ہے او رابن ابی شیبہ کی حدیث میں ہے کہ آنے والا شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ (نیل الاوطار جلد3 صفحہ 30)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب