السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے آٹھ سال پہلے شادی کی اور دوسال بعد گھریلو ناچاکی کی وجہ سے میری بیوی اپنے میکے چلی گئی اور ان کے میکےوالوں نے عدالت سے رجوع کیا لیکن مجھے کوئی نوٹس یا سمن موصول نہیں ہوا ۔ اور نہ ہی میں نے تحریر یا زبانی طلاق دی ۔ اور عدالت نے یک طرفہ کارروائی کر کے خلع کا فیصلہ دے دیا ۔
عرصہ چھ سال بعد اب میری بیوی واپس آنا چاہتی ہےآپ سے سوال یہ ہے کہ کیا اب ہم میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں یا ہمیں نکاح ثانی کرنا پڑے گا قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں ۔ شکریہ
(سائل : احسان الحق شعیب ابراہیم کیپٹن جمال روڈ مکان نمبر 13 ساندہ کلاں لاہور )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اگر واقعی مسمی احسان الحق نے اپنی بیوی کی زبانی یا تحریری طلاق نہیں دی اور نہ عدالت کی طرف سے اس کو یا اس کے کسی رشتہ دار کو کوئی نوٹس سمن وصول نہیں ہوا اور اس کی مکمل بے خبری میں عدالت مذکور نے یک طرفہ خلع کا فیصلہ سنا دیا ہو تو پھر بظاہر شرعی خلع کی تعریف صادق نہیں آتی ۔ کیونکہ شرعی خلع اس گلو خلاصی کو کہتے ہیں جس میں بیوی اپنے شوہر کو ملک نکاح کے عوض مہر وغیرہ واپس کر کے اس کے حبالہ عقد سے آزادی حاصل کرتی ہے جیسا کہ فقہاء اور علماء نے لکھا ہے ۔
1۔ السید محمد سابق مصری خلع کی تعریف میں لکھتے ہیں :
سمى الفداء لأن المرأة تفتدى نفسها بما تبذله لزوجها . (1) (فقه السنة ج2 ص 253)
کہ خلع کو ا فتداء اس لئے کہا جاتا ہے کہ عورت اپنی جیب سے کچھ مال مہر وغیرہ خا وند کو ادا کر کے ملک نکاح سے خلاصی حاصل کرتی ہے ، یعنی مال کے عوض گلو خلاصی حاصل کرنے کا نام خلع ہے ۔
2۔ الشیخ ابوبکر الجزائری خلع کی تعریف یوں ارقام فرماتے ہیں :
الخلع وهو أن تكره المرأة البقاء مع زوجها فتخلع نفسها منه بمال تعطيه اياه عوضها عما انفق عليها فى الزواج بها . (2) (تفسير ايسر التفاسير ج1 ص 215)
’’جب کوئی عورت بطور بیوی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پسند نہ کرے اور اپنی جیب خاوند کی طرف سے نکاح پر اٹھنے والے اخراجات کے عوض مال دے کر ملک نکاح آزادی حاصل کر لے تو اس عمل کا نام خلع ہے ۔
3۔ عنایہ شرح ہدایہ میں یہ تعریف لکھی ہے :
هو فى الشريعة عبارة عن اخذ مال المرأة بازاء ملك النكاح بلفظ الخلع . (1) (حاشيه هداية : باب الخلع ج2 ص 404)
’’لفظ خلع کے ساتھ خاوند کا ملک نکاح کے عوض عورت سے مال کے کر اپنے حبالہ عقد سے آزاد کر دینے کو شریعت میں خلع کہتےہیں ۔‘‘
4۔ فقہاء کی زبان میں خلع کی تعریف یہ ہے :
فراق الرجل زوجته ببدل يحصل له . (2) (فقه السنة : ج2ص 253)
’’شوہر کا اپنی بیوی سے کچھ مال لے کر اس سے جدا ہو جانے کو خلع کہتے ہیں ۔ ‘‘
5۔ ابو الئولیس یسوعی لکھتے ہیں خلع امرأته ، مال کے عوض عورت کو طلاق دینا ۔ (منجد : خلع ص 291)
6۔ منہاج المسلم میں ہے :
عورت کسی وجہ سے اپنے خاوند کو پسند نہ کرنا اور اس کامال مہر وغیرہ واپس کر کے اس سے خلاصی حاصل کر لینا خلع کہلاتا ہے ۔ ( ص : 646)
ان تعریفات سے جو حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شرعی خلع میں عورت کے لئے ضروری ہے کہ خاوند سے وصول شدہ مہر وغیرہ واپس کرے ، یعنی عورت کی طرف سے مہر وغیرہ کی واپسی خلع کے تحقق میں بنیادی شرط ہے ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں خلع متحقق نہ ہو گا ۔
سید سابق مصر ی تصریح فرماتے ہیں :
الخلع - كما سبق - إزالة ملك النكاح في مقابل مال. فالعوض جزء أساسي من مفهوم الخلع. فإذا لما يتحقق العوض لا يتحقق الخلع.(3) (فقه السنة : ج2ص 254)
’’گزشتہ بحث سے ثابت ہوا کہ اپنی بیوی سے مال ( مہر وغیرہ ) واپس لے کر شوہر کاملک نکاح کو زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں ۔ ‘‘
پس اس اصول سے معلوم ہوا کہ عوض خلع کی صحت کے لئے بنیادی جز ہے ، لہٰذا جب تک عوض ( عورت کا مہر وغیرہ واپس کرنا ) متحقق نہ ہو گا شرعاً خلع متحقق (یعنی صحیح ) نہ ہو گا چونکہ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال عدالت نے کی طرفہ طور پر خلع کا فیصلہ سنا دیا ہے تو ظاہر ہے کہ خاوند مسمی احسان الحق کو اس کی بیوی کی طرف سے خلع کے عوض کوئی چیز ادا نہیں کی گئی ، لہٰذا یہ خلع کافیصلہ صحیح نہیں اور نکاح اپنی جگہ جوں کا توں قائم اور بحال ہے ۔
تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے ، از سر نو شرعی طریقہ سے یعنی 2گواہون کی موجودگی میں ولی کی اجازت ےس نئے مہر کا تعین کر کے نکاح پڑھ لیا جائے ۔ کیونکہ خلع کے بعد رجوع کاحق شرعاً ختم ہو جاتا ہے اور بیوی اپنے خاوند کےحبالہ عقد سے آزاد ہو جاتی ہے ہاں اگر عورت کی مرضی ہو تو اپنے اس خاوند سے نیا نکاح شرعاً کر سکتی ہے ۔
فقہ السنہ میں ہے :
يجوز للزوج ان يتزوجها برضاها فى عدتها ويعقد عليها عقدا جديدا . (1) ج2 ص 258، ومنها مسلم از شيخ ابوبكر جابر الجزائرى ص 467)
خلاصہ کلام کہ صورت مسئولہ میں بشرط سوال خلع شرعاً واقع نہیں ہوا کہ یک طرفہ ہوا اور بغیر عوض کے وجود میں آیا ہے ، تاہم احتیاطاً عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے نکاح جدید پڑھ لیا جائے ، یعنی نئے گواہون ، نئے مہر اور ولی کی اجازت سے نکاح کیا جائے ۔
مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی کارروائی کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب