سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) دو رجعی طلاقیں

  • 14448
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1671

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں میں مسمی صوفی افتحار اجمد ولد صوفی غلام محمد ساکن اکرم منزل فلیٹ نمبر 8 جمیلہ سٹریٹ نزد ہوتی مارکیٹ کراچی نے اپنی زوجہ مسمات طیبہ بنت صوفی غلام محمد ساکن شیرانوالہ گیٹ نیا محلہ   مکان نمبر 1229 جی لاہور کو 25اپریل 1991 کو ایک مجلس ایک طلاق دے دی تھی۔ اب ہم  اپنے اس کیے پر پریشان  اور اولاد اور برادری کے الجھے ہوئے مسائل کی خاطر مصالحت پر آمدہ ہیں لہذا کتاب وسنت کی روشنی میں ہم کیا رجوع  کرکے  دوباره   اپناگھر آباد کر سکتے  ہین یا نہیں؟ شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔ یاد رہے کہ میں نے اس سے قبل بھی اپنی زوجہ مذکورہ کو چھ ماہ پہلے طلاق بھی دے دی تھی یہ وسرا چانس ہے۔

(سائل :صوفی افتخار احمد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال وبشرط صحت واقعہ صورت مسئولہ میں ایک ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔ اور رجعی  طلاق میں بالا تفاق علماء امت اندر عدت رجوع کرنے گھر آباد  رکھنا شرعا جائز ہے۔اور بعداز عدت (تین حیض یا تین ماہ یا وضع حمل )نکاح جدید بالاتفاق جائز ہوتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے

االطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ﴿٢٢٩﴾...البقرة

یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں

الطَّلاقُ مَرَّ‌تانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسانٍ- اى اذا طلقتها واحدة او اثنتين فانت فخير فيها ما دامت عدتها باقية بين ان تردها اليك ناويا الاصلاح بها والاحسان اليها وبين ان تتركها حتى تنقضي عدتها تبين منك- الخ.(1) (تفسير بن كثير ج1ص 272)

كہ اس آیت شریفہ کا مطلب ہے کہ جب تم اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے ڈالو توعدت کے اندر اندر تم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ تم اس مطلقہ رجعیہ سے اصلاح اور نیک نیتی کے ساتھ رجوع کرکے آباد ہو جاؤ یا پھر اس کو اس کےحال پر چھوڑ دو۔

نامور مفسر اور اصولی امام محمدب ن علی الشوکانی ﷫ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

المراد بالطلاق المذكور هو الرجعي بدليل ما تقدم من الآية الأولى، أي الطلاق الذي تثبت فيه الرجعة للأزواج هو مرتان، أي الطلقة الأولى والثانية، إذ لا رجعة بعد الثالثة، وإنما قال سبحانه مرتان ولم يقل طلقتان إشارة إلى أنه ينبغي أن يكون الطلاق مرة بعد مرة لا طلقتان دفعة واحدة.کذا قال جماعة من المفسرين . (2) (تفسير فتح القدير ج1ص 238)

كہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رجعی (قابل رجوع) طلاق کا حکم بیان فرمایا ہے کہ وہ طلاق جس میں شوہروں کے لیے شرعاً رجوع کر لینا ثابت ہے ۔ وہ دو طلاقیں ہیں ، یعنی پہلی اور دوسری طلاق ہے کیونکہ تیسری طلاق کے بعد رجوع جائز نہیں ہوتا ۔ اور اللہ تعالیٰ مرتان فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ طلاق یکے بعد دیگرے دو مجلسوں میں دینی چاہیے ۔ اکٹھی دو طلاقیں مراد ہرگز نہیں ورنہ لفظ طلقتان استعمال ہوتا ۔ مزید ارقام فرماتے ہیں :

وأخرج البيهقي من طريق السدي عن ابن عباس وابن مسعود وناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وآله وسلم في قوله : الطلاق مرتان قالوا : وهو الميقات الذي تكون فيه الرجعة ، فإذا طلق واحدة أو اثنتين ، فإما أن يمسك ويراجع بمعروف ، وإما أن يسكت عنها حتى تنقضي عدتها فتكون أحق بنفسها .(3)( فتح القدير ج1ص 240)

کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام﷢ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت شریفہ میں رجوع کا وقت مقرر کر دیا ہے بس جب کوئی شوہر اپنی بیوی کا ایک یا دو طلاق دے گا تو اس کو عدت پوری گزرنے سے پہلے پہلے رجوع کر کے طلاق واپس لینے کاحق حاصل ہے ۔

الشیخ معین الدین محمد بن عبدالرحمن اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں فامساك بمعروف اى اذا طلقتها واحدة او اثنتين فلك الخيار فى المراجعة وحسن المعاشرة – تفسير جامع البيان آيت 229- ص56-کہ آیت فامساک بمعروف کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقین دے ڈالے تو تجھے شریعت کی طرف سے یہ اختیار حاصل ہے کہ تو اپنی مطلقہ رجعیہ بیوی سے رجوع کر کے اچھی طرح اور خوش اطواری کے ساتھ گھر آباد کر لے ۔

قرآن مجید کی اس نص اور مفسرین کی مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق صورت مسئولہ میں صرف ایک رجعی طلاق پڑی ہے ۔ اور سوال نامہ کی آخری سطر کی خط زدہ تصریح کے مطابق طلاق وہندہ صوفی افتخار احمد اپنی اس زوجہ کو آج سے چھ ماہ قبل طلاق دے کر اندر رجوع کر چکا ہے ، لہٰذا اس طرح اب دو طلاقیں پڑ چکی ہیں ۔ چونکہ یہ دوسری طلاق سوال نامہ کی وضاحت کے مطابق 25اپریل 91ء کو دی تھی اور آج 17جولائی 91ء ہے یعنی اس طرح اس دوسری طلاق کے 84دن ہو چکے ہیں ۔ چونکہ مسمات طیبہ بنت غلام محمد کی وضاحت کے مطابق وہ والذین یئیسن من المحیض میں داخل ہو چکی ہیں لہذا ان کی عدت تین حیض کے بجائے اب تین ماہ شرعا مقرر ہے ۔ اس لئے ابھی عدت باقی ہے کیونکہ ابھی صرف 84دن عدت گزرے ہیں ۔ جب کہ عدت نوے دن ہے ۔پس ابھی تک نکاح سابق بحال اور قائم ہے لہٰذا رجوع بلاشبہ شرعاُ جائز ہے اور حلالہ کی قطعاً ضرورت نہ ہے ۔ اس مسئلہ میں قطعاً اختلاف نہیں ۔ مفتی کسی قانونی سقم اورعدالتی جھمیلہ کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص844

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ