السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں یہ کہ مسمی نور صمند ولد نواب قوم بھٹی گوٹھ حاجی شاہ ارائیں تحصیل مورا ضلع نواب شاہ کا رہائشی ہوں یہ کہ مجھے شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو ذیل عرض ہے۔
یہ کہ میری حقیقی دخترمسمات معراج بی بی کو اس کے خاوندمسمی محمد علی ولد انو رقوم بھٹی موضع گوٹھ حاجی شاہ محمد آرائیں تحصیل مورا ضلع نواب شاہ سے عرصہ قریب ایک سال ہوئے کردیا تھا جب کہ مسمات معراج بی بی اپنے خاوند مذکور کے ہا ں 3ماہ رہ کر حق زوجیت ادا کرتی رہی دوران آبادگی فریقین میں ناچاکی پیدا ہوگئی کیونکہ مذکورہ آوارہ رہتا تھا اور ہرطرح کا نشہ وغیرہ کرتا تھا اس کے علاوہ معراج بی بی کو اکثرذدکوب کرتااورمارتا پٹتا۔مذکورہ اپنےخاوندکے ہاں نہایت تنگدستی کے ساتھ دن گزارتی رہی بلاآخر مذکورہ محمد علی نے ربرو گوہان ذیل کے مسمات معراج بی بی کو زبانیں تین بار کہہ کر اور اپنے نفس پر حرام کہہ کر اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا ہوا ہے جس کو عرصہ قریب 9ماہ ہوچکا ہےاور تاحال رجوع نہیں کیا حالانکہ مصالحت کی کوشش کی گئی ہے مگر صلح نہیں ہوسکی۔ اب علماء دین سے سوال ہے کہ وجوہات مذکورہ بالا میں شرعا خاوند کی طرف سے طلاق ہوچکی ہے یا کہ نہیں۔ہمیں شرعا جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں کذب بیانی کا سائل خود ذمہ دارہے۔
(سائل نور صمند والد مسمات معراج بی بی)
تصدیق: ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ سوال بالکل صداقت پر مبنی ہےاگر کسی وقت بھی غلط ثابت ہوگا تو ہم تصدیق کنندگان اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہمیں شرعی فتوی دیا جانا مناسب ہے۔
1۔مولوی نور محمد ولد سلیمان قوم بھٹی موضع جان گوٹھ ۔
2۔غلام قادر ولد سلیمان قوم بھٹی ٹھٹھ مقدر کا تحصیل وضلع اوکاڑہ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسؤلہ میں بشرط صحت سوال و بشرط صحت واقعہ واضح ہوکہ جس طرح تحریری طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔بعینہ زبانی طلاق بھی شرعا واقع ہوجاتی ہے ۔اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ شروع اسلام سے نکاح طلاق سب زبانی کلانی منعقد ہوتے چلے آئے ہیں کہ اہل عرب بالعموم لکھنے پڑھنے میں کورے تھے۔ حضرت بن عمر کی درج ذیل حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کر ہی ہے۔
ابن عمر رضي الله عنهما، ' عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: (انا امة امية، لا نكتب ولا نحسب باب قول النبی لانکتب ولانحسب۔( صیحح البخاری ج1ص 252)
کہ ہم ناخواندہ لوگ ہیں ہم کتابت اور گنتی کے ماہر نہیں ہیں۔ اس لیے شروع سے زبانی نکاح وطلاق کا عمل متوارت چلا آرہا ہے اب ان دونوں قسم کی طلاق کے وقوع کی دلیل ملاحظہ فرمائیے:ب
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم قال قتادة إذا طلق في نفسه فليس بشيء (صحیح البخاری ج2 ص794 باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ والسکران الخ)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی نے میری امت سے اس کے دل کے خیالات کا محاسبہ معاف کرکھا ہے۔ جب تک ان پر عمل نہ کرے یا زبان سے بول کر بیان نہ کرے۔ اس حدیث سے دو مسئلے قابت ہوتے ہیں۔
1۔کہ تحریری طلاق واقع ہوجاتی ہے گو زبانی سے طلاق کا لفظ ادا نہ کرے جیساکہ حدیث کے الفاظ(مالم تعمل) اس حقیقت پر دلالت کر رہے ہیں۔حافظ ابن حجر اس حدیث پر لکھتے ہیں۔
واستدل به على أن من كتب الطلاق طلقت امرأته ؛ لأنه عزم بقلبه وعمل بكتابته وھوقول الجمھور-(فتح الباری ج9ص345)
کہ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ جو شخص اپنی بیوی کو تحریر طور پر طلاق دے دے گاتو اس کو طلاق ہوجائے گی کیونکہ اس نے پنے دل سے ارادہ کیا اور ساتھ ہی لکھنے کا عمل کیا۔جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے کہ طلاق واقع ہوگئی ۔
2۔اس حدیث سے دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہو کہ تحریری طلاق کی طرح زبانی طلاق واقع ہوجاتی ہے جیساکہ اس حدیث کا اخری جملہ (اوتتکلم) اس حقیقت پر دلالت کرہا ہے۔چنانچہ امام ترمذی رقمطراز ہیں:
قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ .(جامع الترمذی مع تحفة الاحوذی ج2 ص415)
کہ اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ جب تک طلاق دہندہ اپنی زبان کا لفظ ادا نہ کرے گا طلاق واقع نہ ہوگی
4۔امام شوکانی لکھتے ہیں۔ اور حدیث ابی ھریرہ
للإستدلال به على أن من طلق زوجته بقلبه ولم يلفظ بلسانه لم يكن لذلك حكم الطلاق ; لأن خطرات القلب مغفورة للعباد۔(نیل الاوطارج6ص6)
معلوم ہوا کہ زبانی طلاق واقع ہوجاتی ہے جیساکہ امام شوکانی نے آخر میں اما ترمذی کے حوالے تحریر فرمایا ہے۔
5۔امام ابن رشد قرطبی وضاحت فرماتے ہیں:
أجمع المسلمون على أن الطلاق يقع إذا كان بينة صريح – فمن اشترط فيه النية واللفظ الصريح فإتباعا لظاهر الشرع-(بداية المجتهدج2ص55)
کہ ج طلاق کی نیت سے لف طلاق استعمال کیا جائے گا توبلاشبہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔
6۔شیخ الاسلام سید نذیر حسین محدث دہلوی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔ملاحظہ فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 73۔
7۔مفتی محمد شفیع آکراچی کت بھی یہی فتویٰ ہے کہ زبانی طلاق ہوجاتی ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج2ص 633۔
فیصلہ مذکورہ احادیث صیححہ جمہور علماء اسلام کی تصریحات کی روشنی میں ثحت واقعہ مسمات معراج بی بی دختر نور صمند بھٹی ساکن گوٹھ حا جی شاہ محمد ضلع نواب شاہ کو رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اور سوال نامہ خط کشیدہ تصریح کے مطابق طلاق کو تقریبا 9ماہ ہوچکے ہیں۔ اگر یہ سچ اور صیحح ہے تو پھر مسمات معراج بی بی کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ کے عرصے میں طلاق کی مدت پوری ہوچکی ہے اور رجعی طلاقوں میں عدت گزر جانے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ لہذا بشرط صحت نکاح ٹوٹ چاکا ہے ۔ مفتی کسی قانون سقم کا ہر گز ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اور عدالت مجاز کی توثیق انتہائی ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب