سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) ایک رجعی طلاق کے بعد رجوع

  • 14446
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3760

سوال

(346) ایک رجعی طلاق کے بعد رجوع

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں دین اس مئسلہ کہ میں نے مورخہ 28۔3۔1994 کو گھریلو اختلاف کی وجہ سے اپنی منکوحہ  بيوي ثريا  بی بی دختر سردار محمد قوم جٹ ساکن موضع غازی پور کو طلاق دے دی تھی اب برداری کے روشن مستقبل کی خاطر ہم آپس میں صلح کرکے اپنا گھر آباد رکھنا چاہتے ہیں کیا کتا ب وسنت کے مطابق ہم دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں؟

(سائل: شہباز احمد  ولد فرزند علی قوم وڑائچ ساکن غازی پور شیخوپورہ بذریعہ محمد یحییٰ اظہر غازی پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال ایک رجعی  طلاق واقع ہوئی ہے اور رجعی طلاق میں اندر عدت (تین حیض یا تین ماہ یا وضع حمل )سے پہلے رجوع کر لینا شرعا جائز ہوتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔

االطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ...﴿٢٢٩﴾...البقرة

یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر طلاق کا حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ کے بعد اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہےتیسری مرتبہ رجوع کی اجازت نہیں۔زمانہ جاہلیت کے  میں یہ حق غیر محدد تھا۔ جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتاتھا۔ اس طرح اسے نہ بساتا نہ اسے آزاد کرتا تھا۔ اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیااور پہلی بار اوردوسری طلاق کے بعد سوچنے اور غور کےنے کی سہولت سے محروم نہیں کیا۔ورنہ  اگر پہلی مرتبہ کی طلاق کے بعد ہمیشہ جدائی کا حکم دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی پیچیدگیان قابو سے باہر ہوجاتی۔علاوہ ازیں اللہ نے  طلقتان سے مراد دو طلاقیں نہیں فرمایا بلکہ الطلاق مرتان (یعنی طلاق دو مرتبہ) فرمایا جس سے اس بات کی طرف اشارہ  فرمادیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقین دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کردینا حکم الہیہ کے خلاف ہے:حکمت الہیہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد چاہے وہ ایک طلاق یا کوئی یا کئی ایک اس طرح دوسری مرتبہ کے بعد چاہے وہ ایک طلاق ہویا کئی ایک مردکو سوچنے سمجھنے  اور جلدجی بازی یا غصے میں کیے کام کا ازالے کا موقعہ دیا جائے اور یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاق کو رجعی طلاق  قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں طلاق ہویا تین ایک رجعی طلاق شرعا واقع ہوئی ہے۔

امام ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

أَيْ: إِذَا طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ، فَأَنْتَ مُخَيَّرٌ فِيهَا مَا دَامَتْ عِدَّتُهَا بَاقِيَةً، بَيْنَ أَنْ تَرُدَّهَا إِلَيْكَ نَاوِيًا الْإِصْلَاحَ بِهَا وَالْإِحْسَانَ إِلَيْهَا، وَبَيْنَ أَنْ تَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَتَبِينَ مِنْكَ  (تفسیر ابن کثیرج1 ص 292)

یعنی جب تو اپنی بیوی کو ایک رجعی طلاق دے یا دوسری مرتبہ طلاق دے توتجھے عدت کے اندر رجوع کرلینے کا اختیار ہےاور احسان کرنا چاہتا ہے اور اسے مزید پریشان کے نے کی نیت نہ ہوں۔ یا پھر اسے چھوڑ دینے کا بھی تجھے اختیار ہے تاکہ عدت پوری ہوجانے پر تیرے  نکاح سے آزاد ہوجائے۔

محقق شیخ محمد سابق مصری ﷫ لکھتے ہیں:

الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان اى ان الطلاق الذى شرعه الله يكون مرة بعدمرة بعد مرۃانه يجوز...

کہ الطلاق مرتان کا مطلب یہ ہے کہ نے بوقت اشدضرورت جس طلاق کی اجازت دی ہے وہ طلاق ہے جویکے بعد  دیگرے  مختلف مجلسوںمیں  دی جائے اور ایسی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ امساک بالمعروف کا معنی  رجوع کرلینا ہے۔ اور اور بیوی کو نکاح جدید کے ساتھ لوٹا لینا اور اس کے ساتھ اچھی طرح آباد ہونا ہے ۔تکلیف پہنچنا مقصود نہ ہو رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّـهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا...﴿٢٢٨﴾...البقرة

طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو اسے چھپائیں، اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا اراده اصلاح کا ہو۔

اس آیت شریفہ سے ثابت ہوا رجعی طلاق میں عدت کے اندر(تین حیض وغیرہ)خاوند کو اپنی بیو ی کو رجوع کا حق ہے اور آج15۔92ہے اس طلاق پر ایک برس نو ماہ ستائیس دن گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے عدت پوری ہو کر طلاق موثر اور نکاح ٹوٹ چکا ہے۔چونکہ یہ طلاق رجعی ہے  اور جعی طلاق کی عدت کے بعد نکاح ثانی بغیر حلالہ کے جائز ہے چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ...﴿٢٣١﴾...البقرة 

اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وه اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وه آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں۔

یہ آیت حضرت معقل بن یسار﷜ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب انھوں نے اپنی ہمشیرہ کوطلاق دہندہ خاوند سے  ثانی سے روک ینے سے روک دیا تھا۔ صیحح البخاری کتاب التفسیر ج2ص269پارہ18وکتاب الطلاق۔ اس ایت شریفہ اور صیحح حدیث سے ثابت ہوا کہ رجعی طلاق میں بعداز عدت نکاح ثانی شرعا بلاشبہ جائز اور خاوند کا شرعی حق ہے۔اورحلالہ جیسے لعنتی فعل کی قطعا ضروت نہ ہے۔

خلاصہ بحث یہ کہ قرآن وحدیث نصوص صریحہ کے مطابق صورت مسؤلہ میں بہرحال ایک رجعی طلاق پڑی ہے اور چونکہ عدت پوری ہوچکی ہے لہذا اب رجوع ہر گز جائز نہیں تا ہم نکاح ثانی جائز  اور حلال ہے یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے۔مفتی کسی عدالتی جھگڑے کا ذمہ دار نہ ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص839

محدث فتویٰ

تبصرے