سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے

  • 14444
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1547

سوال

(344) یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میرے داماد ندیم بٹ نےشراب نوشی کی حالت میں اپنی بیوی کو یکبار ،یعنی ایک ہی سانس میں تین طلاق طلاق طلاق بول دی ہے ۔ اب وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اور شراب سے تائب ہوکر اپنا گھرآباد رکھنا  چاہتا ہے اور بیوی بھی آباد رہنے پر راضی ہے ۔قرآن وحدیث کے مطابق وہ اپنا گھر آباد رکھ سکتے ہیں یا نہیں ؟ شرعی فتوی ٰ جاری فرمایا جائے۔

نوٹ : میرے داماد نےاس سے پہلے اپنی اس بیوی کو کبھی زبانی یا تحریری کوئی طلاق نہیں دی ۔ اور اس طلاق پرصرف  تین دن گز رے ہیں ۔(سائل : محمد یونس کاشمیری لاہور) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں اگر شراب کے نشہ میں دھت ہو کر (یعنی اتنا نشہ ہو کہ زمین آسمان اور دائیں بائیں کی تمیز نہ رہے )طلاق دی تھی تواس صورت میں طلاق نہیں ہوئی نہ ایک اور نہ تین ۔اور  اگر نشہ اتنا سخت نہ تھا بلکہ ہوش وحواس قائم تھے تو اس صورت میں قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ صحابہ کرام اور ماہرین شریعت کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ۔چنانچہ قرآن میں ہے :

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ...٢٢٩﴾...البقرة

’’طلاق رجعی دو مرتبہ یعنی دو وقتون میں ہے پھر یاتو بیوی کو روک لینا ہے یا پھر بھلے طریقہ کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔،،

اس آیت میں قابل غۃر لفظ مرتان ہے جو مرۃ کا تثنیہ ہےاور مرۃ کامعنی ایک دفعہ اور ایک وقت ہے ، جیسا کہ قرآن میں ہے :

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ... ٥٨﴾...النور

’’اے ایمان والو ! تمہارے غلام لونڈی اور نابالغ لڑکے لڑکیاں آپ کے پاس آنے کے لئے تین وقتوں میں اجازت حاص کریں (1) نماز فجر سے پہلے (2) اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے  کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تینوں وقت تمہار ے پردے کے ہیں ،،

اس آیت شریفہ میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مرات کامعنی اوقات : یعنی تین وقت ہیں اور  قرآن کی تفسیر کامسلمہ قاعدہ ہے :القرآن یفسر بعضہ بعضا لھذا قاعدہ کےمطابق  الطلاق مرتان کا معنی بھی لامحالہ  طلاق  دو وقتو ں میں ہےنہ کہ دوطلاقیں ورنہ قرآن کی عبارت الطلاق طلقتان ہوتی جب کہ ایسا ہرگز نہیں ۔ پس قرآن سےثابت ہوا کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق  ہوتی ہے۔ اس بات کی مزید تفصیل درج ذیل صحیح احادیث میں آچکی ہے ۔

3۔ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً. (صحیح مسلم کتاب الطلاق ج 1 ص 477. )

’’حضرت ابن عباس ؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابو بکر صدیق کےعہد میں اور پھر حضرت عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں تک اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شریعت میں شمار ہوتی تھی۔ ایک سچا واقعہ بھی پڑ ھتے چلیے تاکہ ذہن صاف ہو جائے ۔،،

4۔عن ابن عباس عن ركانة بن عبد يزيد طلق - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن   علیه حزناً شديداً فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف طلقتها؟ قال: ثلاثاًفي مجلس واحدفقال  إنما تلك واحدة، فأرتجعها. ( فتح الباری  شرح صحیح البخاری ج 9 س 316.)

’’حضرت رکانہ ﷜ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کرے بعد ازاں بڑے غمگین ہوئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ حضرت اکٹھی تین طلاقیں یکبار دے چکا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ، آپ رجوع  کر لیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص837

محدث فتویٰ

تبصرے