سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(342) نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

  • 14442
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4113

سوال

(342) نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نشئی جب کہ نشے کی حالت میں دھت ہو اور اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا طلاق ہو گئی ؟ (سائل :طارق رفیق مکان نمبر 210 ہلاک نمبر 12 بی ون ٹاؤن شپ لاہور )  


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ اگر چہ اس مسئلہ میں قدر ے اختلاف ہے ،تاہم کتاب وسنت پر مبنی ادلہ ،قویہ کے مطابق علمائے اسلام اور محققین شرع متین کی تحقیق انیق کےمطابق نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق شرعا واقع نہیں ہوتی بشرطیکہ طلاق دیتے واقعی نشئی آدمی دائیں بائیں ،اچھائی ، برائی اور زمین وآسمان کا امتیاز کھوئے ہوئے  ہو۔ کیونکہ طلاق دینے کی اہلیت کےلئے ضروری ہےکہ طلاق دہندہ کاطلاق دیتے وقت عاقل ،بالغ اور مکمل طور پر بااختیار ہو اور مکمل اہلیت یعنی مکمل عقل ،بلوغت اور مختار ہو نا شرط اساسی ہے ۔ السید سابق مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

وإنما تکمل الأھلیة بالعقل والبلوغ والاختیار وفی ھذا یروی أصحاب السنن عن علی رضی اللہ عنه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم أنه قال رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی ٰ یستقظ وعن الصبی حتی ٰ یحتلم وعن المجنون حتی ٰ یعقل . (فقه السنة : ج 2 ص 211،صحیح البخاری ج 2ص 794.)

’’ حضرت علی ﷜ سے روایت ہےکہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمیوں سے قلم اٹھالی گئی ہے ۔ یعنی ان کی کار کر دگی شرعا معتبر نہیں (1) سویا ہوا آدمی جب تک بیدار  نہ ہو جائے (2) بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے اور (3) پاگل آدمی جب تک اس کی عقل بحال نہ ہو جائے ۔

او ر انہی کے حکم میں نشہ میں دھت اور مدہوش آدمی شامل ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ...٤٣﴾...النساء

’’اے ایمان والو ! نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشہ کی حالت میں ہو حتی کہ تم جان لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔اس آیت کے مطابق جب نشہ کی حالت میں پڑہی ہوئی نماز معتبر نہیں تو پھر نشہ میں دی گئی طلاق شرعا کیونکہ معتبر ہوسکتی ہے ۔،،

حضرت ابو ہریرہ ﷜ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں :

قال کل طلاق جائز إلا طلاق المغلوب علیٰ عقله . (رواہ الترمذی فقه السنة ج 2 ص 211)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک  کی طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر اس آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوتی جس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو ۔،،

قال عثمان رضی اللہ عنه لیس لمجنون ولا لسکران طلاق . .( صحیح البخاری ج 2 با ب الطلاق فی الا غلاق والکرہ الخ ص 793)

’’حضرت عثمان ﷜ فرما تے ہیں کہ پاگل انسان اور نشئی آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔،،

قال ابن عباس طلاق السکران المستکرہ لیس بجائز .(صحیح البخاری ج 2 ص 793.)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس تصریح فرماتے ہیں کہ نشہ میں دھت انسان اور مجبور ومکرہ کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔،،

السید محمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں :

ذهب جمہور الفقهاء إلیٰ طلاق السکران یقع وقال قوم انه لغو لا عبرة له لانه و والمجنون سواء اذا کلا منھا فاقد  العقل الذی ھو مناط التکلیف. ( فقه لسنۃج 1 ص 212.)

’’جمور فقہاء کے نزدیک نشی کی دی ہوئی طلاق واقع  ہو جاتی ہے ۔ جب کہ دوسرے اہل علم کا موقف ہے کہ نشی کی طلاق لغو اور فضول چیز ہے کیونکہ پاگل اور نشی کا حکم ایک ہے ۔ کیونکہ پاگل کی طرح نشہ کی حالت میں نشی آدمی بھی عقل سے عاری  ہوتاہے اور شرعی عقل پرہی فیصلہ دیتی ہے۔جب عقل نہیں تو شریعت بھی اپنا فیصلہ جاری  نہیں کرتی ۔ اس لئے

ذھب بعض اھل العلم انه ا یخالف عثمان فی ذلک احد من الصحابة. ( فقه السنة ج 2 ص212.)

بعض اہل علم کی تحقیق کےمطابق کسی صحابی کا حضرت عثمان کے اس فتویٰ پر اختلاف  ثابت نہیں گویا صحابہ  کااس  فتویٰ عثمانی پر اجماع سکوتی ہوچکا ہے ۔

ایک قول کے مطابق امام احمد کا یہی مذہب اور فتویٰ ہے کہ نشہ میں دھت آدمی کی دی ہوئی طلاق شرعا واقع نہیں ہوتی ۔ شافقیہ میں سےعلامہ مزنی اور خنفیہ  میں امام طحاوی ، ابو الحسن عبید اللہ الکرخی کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام داؤد ظاہر ی اور تمام اہل  الظاہر  کابھی یہی مذہب اور فتویٰ ہے امام شوکانی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہےحضرت امام بخاری کا بھی یہی  مذہب ہے اور دلائل کی رو سےہی مذہب مضبوط اور اقر ب الی الحق ہے  وبہ یفتی ٰ وعلیہ الفتوی ٰ کی نشہ میں مکمل طور پر دھت آدمی کی طلاق شرعا معتبر نہیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص835

محدث فتویٰ

تبصرے