سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(336) تحریری طلاق کا حکم اور اس کی شرطیں

  • 14436
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3606

سوال

(336) تحریری طلاق کا حکم اور اس کی شرطیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری دختر مسمات صدیقہ بی بی کانکاح ہمراہ مسمی شمیر علی ولد ناظر حسین قوم راجپوت محلہ انور آباد تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد سے عر صہ تقریبا 2 سال قبل کر دیا تھا ۔جب کہ مسماۃ مذکورہ خاوند مذکور کے ہاں ڈیڑھ سال آبادرہی ۔دوران

آبادگی مابین فر یقین گھر یو اختلاف کی وجہ سے خاوند مذکور نےمسمات کو مار پیٹ کر اور تین بار تحریر طلاق طلاق طلاق لکھ اور اپنے نفس پرحرام کہہ کہ کر ہمیشہ کے لئے گھر سے باہر نکال دیا ہوا ہے جس کو عرصہ تقریبا 6 ماہ کا ہو چکاہے ۔ اور آج تک کو شش مصالحت کے باوجو د بھی صلح نہ ہو سکی ۔اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا شرعا تین بار طلاق جو کہ خاوند نے تحریری طور پر دی تھی ،شرعا واقع ہو چکی ہے یانہیں ؟ نیز مسماۃ نکاح جدید کی حق دار ہے یا نہیں ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں ،کذب بیانی ہوگی تو سائل خود ذمہ دار ہوگا لہذا ہمیں شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔(سائل: مسمی شیر محمد حقیقی باپ مسماۃ مذکورہ ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت واقعہ صورت مسؤلہ میں مسمات  صدیقہ بی بی دختر مسمی شیر محمد  ولد محمد دین راجپوت کو ایک رجعی طلاق  واقع ہو کر موثر ہوچکی اور نکاح کالعدم قرار پا چکا ہے ۔ طلاق تحریری ہو یا زبانی کلامی جب بقائمی ہوش وحواس اور بلاجبر واکراہ غیر ے ہوتو بلاشبہ بالاتفاق پڑ جاتی ہے ۔ چنانچہ  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ . (1)صحیح البخاری باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ الخ ج2 ص 793،794

’’حضرت ابو ہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے میری امت کے دلوں کےخیالات سے درگزر فر مارکھا ہےجب تک وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنائے یا زبان سےبول کر بیان نہ کرے ۔،،

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں :

واستدل به علی  أن من کتب الطلاق طلقت إمراته لأنه عزم بقلبه وعمل بکتابته وھو قول الجمہور وشرط مالک فیه الأشهاد علی ذٰلک (2)فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 9 ص 345

کہ اس حدیث سے جملہ (مالم تعمل ) سے استدالال کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تحریری طلاق دے ڈالے تو اس کی بیوی پر طلاق پڑ جائے گی ،کیونکہ اس نے دل سے طلاق دینے کا رادہ کیااور اس کے ایقاع کے لئے لکھنے کاعمل کیا ۔ جمہور علمائے امت کا یہی قول ہے کہ تحریری طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

مولانا ابوالحسنات عبد الحی حنفی لکھتےہیں :

فمن رکن الطلاق التلفظ یدل علیه فلا یقع بمجرد العزم النیة کذا فی البناء ویلحقه ما یقوم مقامه کالاشارة المفھمة والکتابة.(3) عمد ةالرعایة ج2 ص 72 حاشیه 7.

کہ محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک طلاق کے لئے زبان سے ایسا لفظ ادا نہ کیا جائے جو طلاق پر دلالت کرتا ہو اور اسی طرح واضح اشارہ اور تحریر سےبھی طلاق ہوجاتی ہے ۔

السیدسابق مصری ارقام فرماتےہیں :

والکتابة یقع بھا الطلاق ولو کان الکاتب قادرا علی النطق فکما ان للزوج ان یطلق زوجه باللفظ فله أن یکتب إلیھا الطلاق واشترط الفقهاء أن تکون الکتابة مستبینة مرسومة ومعنی کونھا مستبینة ای بینة واضحة بحیث تقرأ فی صحیفة ونحوھا ومعنی کونھا مرسومة أی مکتوبة بعنوان الزوجة بأن یکتب إلیھا یا فلانة أنت طالق فاذا لم بوجه الکتابة إلیھا بأن کتب علیٰ ورقة أنت طالق أو زوجتی طالق فلا یقع الطلاق إلا بالنیة لإحتمال أنه کتب ھذہ العبارۃ من غیر أن یقصد إلی الطلاق وإنما کتبھا لتحسین خطه مثلا . (1)فقه السنة ج2 ص 219

کہ تحریری طلاق بھی پڑ جاتی ہے اگر چہ تحر یر ی طلاق دینے والا گونگانہ بھی ہو ، لہذا جس طرح طلاق دہندہ کو زبانی طلاق دینے کاحق حاصل ہے ، اسی طرح وہ اپنی بیوی کی طرف تحریری طلاق بھیجنے کا بھی مجاز ہے ۔ تاہم فقہاء نے تحریری  طلاق کے وقوع کے یہ دو شرطیں ضروری قرار دی ہیں ۔ کہ طلاق مستبینہ ہو ، یعنی خط اتنا واضح ہو کہ وہ صاف پڑھا جاتا ہو ۔ دوسرے یہ کہ تحریر کارخ بیوی کی طرف ہو، یعنی اس میں  اپنی بیوی کو خطاب کرت ہوئے یہ احتما ہو سکتا ہےکہ کاتب نے صرف خو شخطی کے لئے أنت طالق یا زوجتی  طالق  لکھا ہو اور طلاق کی نیت نہ ہو ۔ہاں اگر طلاق کی نیت سے لکھا تو طلاق پڑجائے گی ۔

مفتی محمد شفیع آف کراچی لکھتے ہیں :

طلاق بذریعہ تحریر بھی جائز ہے ۔اگر طلاق غیر مشروط لکھی ہوتو جس وقت الفاظ طلاق کاغذ پرآئے اسی وقت طلاق پڑ جائے گی ۔ بشرطیکہ طلاق نامہ میں اپنی عورت کو خطاب ہو ۔ کذا فی الدر المختار والشافی ۔ طلاق نامہ دوسرے شخص کے پاس بھییجے اور وہ عورت کو سنا دے یہ بھی جائز ہے ۔ اور طلاق تو لکھنے کے ساتھ ہی پڑ جائے گی ۔سنائے یا نہ سنائے اورسن کر رسید دے یانہ  دے  ۔الخ.(2) فتاوی دارالعلوم دیوبند ج2 ص 633.طلاق کنائی)

فیصلہ : صورت مسؤلہ میں بشرط صحت سوال مسمات صدیقہ بی بی  کو ایک رجعی طلاق پڑ چکی ہے ۔ اور طلاق نامہ کی خط کشیدہ  تصریح کے مطابق آج سے چھ ماہ قبل تحریر کیا گیا تھا۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عدت (تین حیض ) پوری ہوچکی ہے ، لہذا موثر ہوکر نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ اور مسمات مذکور ہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینے میں شرعا مختار ہے ۔ مفتی کسی  قانونی سقم کا ہر گز ذمہ دار نہ ہو گا ۔ یہ محض شرعی فتویٰ ہے مجاز اتھارٹی سے توثیق ضروری ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص824

محدث فتویٰ

تبصرے