سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(334) دوسری طلاق کے بعد رجوع

  • 14434
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1141

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں مسمات گوہر بانو دختر سردار مرزا کانکاح مورخہ 90۔ 8۔17 کو ہمراہ محمد سعید ولد محمد سوسف ہوا۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر محمد سعید نے  مجھے 93۔4۔12کو ایک عدد طلاق بھیجی اس دوران مجھے  کوئی ماہواری نہ ہوئی ۔اور ہماری صلح بتاریخ 93۔4۔17کو ہوگئی اب دوسر طلاق محمد سعید نےمجھے 93۔6۔27 کوبھیجی  او رعدالت کے ذریعے ہماری صلح 93۔9۔9کو ہوگئی ۔ اس دوران مجھے دوماہواریاں ہوئیں ۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مجھے بتائیں کہ آیا کہ مجھے کتنی طلاقیں ہوئیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال مسؤلہ میں واضح  ہو کہ آپ کو آپ کے اس بیان واقرار اور تحریر ہذا کی روسے 93ء میں آپ کو دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ۔ایک 93۔4۔12 والی اور دوسری مورخہ 93۔6۔27 والی ۔کیونکہ قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ کے مطابق یکجائی تیں طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ...٢٢٩﴾...البقرۃ

کہ رجعی طلاق دودفعہ ہے ، پھر یا تو بھلے طریق کے ساتھ بیوی کو روک لینا ہے یا پھر اچھے انداز میں چھوڑ دینا ہے ۔ کیونکہ مرتان مرۃ کا تثنیہ ہے او ر مرۃ کامعنی ایک دفعہ یا ایک وقت ہے ۔جیسے کہ سورہ نور میں ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ...٥٨﴾...النور

کہ اے ایمان والو ! تمہارے غلام لونڈی او ر نابالغ لڑکے لڑکیا ں تین وقتون میں تمہارے پاس آنے کی اجازت لیا کر یں ۔(1) فجر کی نماز سے پہلے (2) دوپہر کے وقت اور (3) عشاء کی نماز کے بعد ۔یہ تین وقت تمہاری بے پردگی کے وقت ہیں ۔

اس آیت شریفہ نے فیصلہ کر دیا کہ مرات کامعنی اوقات ہیں ، لہذا القرآن یفسر بعضہ  بعضا کے مسلمہ قاعدہ کے مطابق الطلاق مرتان کا معنی طلاق دو دفعہ ہے دو عدد طلاق نہیں ۔ ورنہ الطلاق طلقتان ہونا چاہیے تھا جب کہ ایسا ہرگز نہیں ۔ اب احادیث ملاحظہ فرمائیے ۔

1۔ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً(صحیح مسلم :کتاب الطلاق ج1 ص 477)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں ،ابو بکر صدیق کی خلافت میں اور حضرت عمر فاروق ؓ  کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک یک بارگی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعا واقع ہوتی تھی ۔

2۔ عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف طلقتها قال ثلاثاًفي مجلس واحد قال فقالہ      إنما تلك واحدة، فأرتجعها.( اخرجه احمد وابو یعلی ٰ وصححه ۔فتح الباری ج 9 ص 116.)

حضرت رکانہ ﷜ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کر بڑے غمگین ہوئے ۔جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کاعلم ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے تم رجوع کرسکتے ہو۔

3۔حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت علی ، حضرت زبیر ، حضرت ابو موسیٰ اشعر ی ،حضرت عبد الرحمان بن عوف وغیر ہ ہزاروں صجابہ کرام ﷢ کابھی یہی مذہب اور فتویٰ ہےکہ یکبار کی  تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔(العلیق المغنی :ج4 ص 28)

4۔شیخ الاسلام امام ابن تیمہ ، ابن قیم ، شیخ الکل سیدنذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری کا بھی یہی فتوی ہے ۔ خلاصہ کلام یہ ہے  صورت مسؤلہ میں آپ کو دو ل طلاقیں پڑ چکی ہیں ۔لہذا اگر واقعی آپ کو اس دوران ،یعنی 93۔6۔27 سے لے کر93۔9۔9 تک تیسرا حیض (ماہوار) نہیں آیا تو پھر  نکاح سابق  بحال اور قائم تھا اور رجوع عدت کے اندر ہوا ہے ۔ جو کہ شرعا صحیح ہے ۔ یہ جواب بشرط صحت اقرار وتحریر لکھا گیا ہے ۔ورنہ اگر آپ واقعی صحت مند ہیں اور حیض باقاعدگی کے ساتھ آرہا ہے تو پھر مورخہ 93۔ 6۔ 27 سے لے کر 93۔ 9۔9 تک 75 دن بنتے ہیں یعنی پونے تین ماہ کا عرصہ ہےاور عام صحت مند عورتوں کو اتنے دنوں کے اندر اندر عموما تیسرا حیض آچکتا ہے او رعورت غسل کر کے فارغ  ہوجاتی ہے ۔اگر تیسرا حیض  آچکا تھا اور بعد میں رجوع کیا گیا ہےتو یہ رجوع شرعا ناجائز ہےکہ نکاح ٹوٹ جانے بعد عمل میں آیا ہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر نکاح ثانی کر لیں ۔اور حلالہ کی ضرورت نہیں ۔ حلالہ ویسے بھی لعنتی عمل ہے ۔یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ۔ جومحض ایک شرعی مسئلہ کا اظہار ہے۔ مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی جھمیلوں کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص821

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ