السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ،مفتیان شرح متین اس مسئلے کے بارے میں کہ محمد صفدر ولد بشیر نے 14 اپریل 1981ء کو اپنی بیوی کو بیک وقت تین دفعہ طلاق طلاق طلاق لکھ کر بھیج دیا ہے ۔ اس کے بعد وہ آج سے دوبارہ رجوع کرنے کاخواہش مند ہے۔ جبکہ طلاق کو عرصہ ایک ماہ 16دن گزر چکے ہیں ؟ اب اس کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ دے کے مشکور فرمائیں ۔(سائل قمر الدین 46 نکلسن روڈ ، منوہر سڑیٹ لاہور )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔اگر چہ اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ تاہم قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ مرفوعہ متصلہ کے پیش نظریہی صحیح ہے کہ مجلس واحد کی اکٹھی تین طلاقیں شفاہی ہوں یا تحریری شرعا ایک رجعی طلاق ہوتی ہے ،چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... ٢٢٩﴾...البقرة
یعنی طلاق (جس کےبعد خاوند رجوع کر سکتاہے ) دوبارہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی اپنے ہاں آباد رکھے یا اچھی طرح سے رخصت کردے ۔
یعنی طلاق مرۃ بعد مرۃ دینی چاہیے اور صحیح مسلم میں ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، طَلاقُ الثَّلاثِ: وَاحِدَةً. (صحیح مسلم ج 1 ص 477۔ ومسند احمدبن حنبل مع تعلیقات احمد شاکر المصری ج4 ص 314۔ونیل الاوطار ج6 ص 258. )
یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس کابیا ن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق کےعہد سے لے کر
عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - إمرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟ " قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "فى مجلس واحد؟ " قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت"، قال: فراجعها،قال احمدشاکر المصری اسناده صحیح ورواه الضیاء فی المختار کما نقله ابن القیم فی اغاثة اللھفان ورواه ابو یعلی کما ذکره الشوکانی ص 261وص 262ج 6 ورواه البیھقی کما فی الد رر المنثور وھذا الحدیث عند ی اصل جلیل من اصول التشریع. (مسند احمد بن حنبل مع تعلیقات احمد شاکر ج4 ص 123
یعنی حضرت رکانہ ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھے ۔بعد ازاں اس پربہت غمگین ہوئے ۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ توایک طلاق ہوئی ہےتم چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ تو حضرت رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا ۔،،
شیح الاسلام حافظ ابن حجر اس حدیث کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں :
وھذا الحدیث نص فی المسئلة لا یقبل التاویل الذ ی فی غیر ہ من روایات الاتی ذکرھا. .( فتح الباری شرح صحیح بخاری :ج9 ص 316 طبع بیروت )
کہ یہ حدیث صحیح اس مسئلہ میں نص صریح ہے اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش ہرگز نہیں ۔
امام شوکانی لکھتے ہیں :
وھذا لحدیث نص فی محل النزاع . .( نیل الاوطار : ص 216.)
یعنی یہ صحیح حدیث اس مسئلہ میں قول فصیل کی حثیت رکھتی ہے ۔بہرحال حضرت ابو موسیٰ ، حضرت علی ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ،حضرت زبیر طاؤس ،عطا جابر بن زید ،ہادی ، قاسم ،باقر ،امام ابن تیمہ ،امام ابن قیم اور دوسرے محقیقن کا یہی مذہب ہے کہ مجلس واحد کی اکھٹی تیں طلاقیں ایک ہی رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔ (نیل الاوطار :ص 260ج 5.)
انتصر لھذا المذھب ابن تیمة الحنبلی فی تصانیفه وتلمیذہ (ابن القیم )فی کتابه زاد المعاد واغاثة اللھفان ،عمدة الرعایة (حاشیه ،شرح وقایه کتاب الطلاق ربع ثانی)
میں کہتاہوں کہ امام ابو حنیفہ کےمذہب میں بھی ایک قول یہی ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ابک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔چنانچہ امام شمس الحق العظیم آبادی لکھتے ہیں ۔
وحکاہ عن محمد بن مقاتل الرازی من اصحاب ابی حنیفه وھو احد القولین فی مذھب ابی حنیفه . (التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی : ج 4 ص 78 طبع ملتان.امام ابو حنیفه )
کےاصحاب میں سے محمد بن مقابل رازی کا یہی مذہب ہے اور ابو حنیفہ کےمذہب ہے ۔ بہر حال مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔اور رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع جائز ہوتاہے ۔
﴿ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ...٢٢٨﴾...البقرة
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ...٢٣١﴾...البقرة
اور اگر عدت گز ر جائے ،یعنی طلاق کے بعد تیسرا حیض ختم ہوجائے تو عدت ختم ہو چکی اور نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ ہاں ایسی صورت میں بلا کسی حلالہ وغیرہ نکاح ثانی شرعا جائز ہوتاہے ۔
چنانچہ فرماتا ہے :
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ...٢٣٢﴾...البقرة
یعنی جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر ان کی عدت (تین حیض یا تین ماہ وضع حمل )گز جائے تو ان کو (سابقہ ) خاوند کے ساتھ نکاح کر لینے سے مت روکو۔ اگر دوستور کے موافق رضا مند ی ہو جائے ۔
حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ واقعہ یوں ہوا کہ میری بہن کو اس کے خاوند ابو البداح نےایک طلاق دے دی اور رجوع نہ کیا حتی گزر گئی ۔پھردونوں نے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا ۔ جب وہ میرے پاس پیغام لے کر آیا تو میں نے اسے سخت گرم ست کہا اور قسم کھائی کہ اب تم دونوں کانکاح نہ ہونے دوں گا۔اسی پر نے یہ آیت نازل فرمائی ،لہذا میں نے نکاح کی اجازت دے دی اور اپنی قسم کا کفارہ اد ا کیا۔ (صحیح بخاری : ص 649 ج 2 تفسیر سورۃ البقرۃ.)
فیصلہ :
بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں دلائل مذکورہ بالا کے پیش نظر ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے اور طلاق چونکہ 4 اپریل 1981ء کو دی گئی جیسا کہ سوال کی عبارت سے ظاہر ہے اور آج27 مئی ہے کہ آج طلاق کو ایک ماہ چوبیس دن ہو چکے ہیں ۔ لہذا اگر ابھی تک تیسرا حیض ختم نہیں ہوا تو سابقہ نکاح بحال قائم رہا اور اس صورت میں بلا نکاح ثانی شرعا رجوع جائز ہے ۔ اور اگر تیسرا حیض ختم ہو چکاہے تو دوبارہ نکاح پڑھ لیں ۔حلالہ جیسی قبیح حرکت کی ضرورت نہیں ۔ اور نکاح ان شاء اللہ شرعی اور صحیح ہو گا ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب