السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میں نے مورخہ 91۔ 11۔24 کو اپنی بیوی مسمات منور سلطان نہ کو گھریلو ناچاکی اوراختلاف کی وجہ سے ایک طلاق دے دی تھی اور دوسر ی طلاق مورخہ 91۔12۔25 کو دے دی اور اس کی عدت گزر جانے پرنکاخ ثانی کرلیا تھا ، پھر کچھ ماہ بعد اختلاف ختم نہ ہونے کی وجہ سے پھر تیسری طلاق مو رخہ 92۔7۔1 کو دے دی تھی ۔ اب سوال یہ ہےکہ میں اس مطلقہ ثلاثہ بیوی سے بچوں کےروشن مستقبل کےپیش نظر صلح کرکے اپنا گھر آباد کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا قرآن وحدیث کےمطابق میں اپنی اس بیوی کے ساتھ رجو ع یا نکاح کر سکتاہوں یا نہیں ؟ شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔
(سائل ثناء اللہ مکان نمبر 131 گوشہ احباب نمبر 3 نزد اعوان ٹاؤن لیکسو کالونی روڈ مسجد ریاض الجنۃ اہل حدیث لاہور)
یہ کہ میری بیٹی مسمات زہراں بی بی کا نکاح ہمراہ محمد عارف ولد جان محمد قوم چنگڑ محلہ سلطان آباد شاہ روڑ گجرات سے عرصہ تقریبا 3 سال 2 ماہ قبل کر دیا تھا جب کہ مسمات مذکورہ اپنے خاوند کا ہاں ایک ماہ وقفہ وقفہ سے آباد رہی ۔ اس دوران مابین فریقین گھریلو اختلافات کی وجہ سے ناچاکی پید اہوگئی او ر خاوند مذکور نے اس گھر یلو تنازعہ کی وجہ سے تین بار زبانی طلاق طلاق طلاق کہہ دی ہےجس کو عر صہ تقریبا 3 سال ایک ماہ کا ہو چلا ہے ۔ خاوند مذکور نےآج تک رجوع نہ کیا ہے مسمات اس وقت سے اپنے باپ کے پاس رہ رہی ہے ، اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا شرعا خاوند مذکور کی طرف سے تین بار زبانی کلامی طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں ؟ مجھے مدلل شرعا جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں ، کذب بیانی ہو گی تو سائل خود ذمہ دار ہو گا۔ لہذا مجھے شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔(سائل محمد صادق حقیقی باپ مسماۃ مذکورہ )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں طلاق بائنہ کبرٰی واقع ہو چکی ہے اور بائنہ کبرٰی طلاق یہ ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں طلاق بائنہ کبرٰی واقع ہو چکی ہے اور بائنہ کبرٰی طلاق یہ ہے۔
الطلاق البائن (الکبرٰی)ھو الطلاق المکمل للثلاث(1)فقه السنة ج2 ص 237
کہ طلاق بائنہ کبرٰی اسے کہتے ہیں جو پہلی دو طلاقوں کو تین طلاق بنا دیتی ہے ۔ منہاج المسلم میں ہے کہ مختلف مجالس میں تین طلاقیں یا پہلے سے واقع کردہ دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق دے دے تو یہ (بائنہ کبرٰی طلاق بن جاتی ہے ) تو ان (میاں بیوی ) کے مابین بینونت کبرٰی بڑی جدائی والی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور یہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں جب تک وہ دوسرے کسی شخص کے ساتھ نکاح نہ کرے اور دوسرا خاوند جماع کے بعد بغیر کسی پیشگی معاہدہ کے اپنے طور پر طلاق نہ دے یا فوت نہ ہوجائے ۔.(2) منھاج المسلم ص 639و640
قرآن مجید میں ارشاد ہے : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ.(البقرۃ)پھر اگر اس (دو طلاق والی بیوی )کو تیسری طلاق دے دو تو اب اس (خاوند )کے لئے حلال نہیں جب تک وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کر لے ۔
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أَيْ أَنَّهُ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ طَلْقَةً ثَالِثَةً بَعْدَ مَا أَرْسَلَ عَلَيْهَا الطَّلَاقَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ، أَيْ حَتَّى يَطَأَهَا زَوْجٌ آخَرُ فِي نِكَاحٍ صَحِيحٍ، فَلَوْ وَطِئَهَا وَاطِئٌ فِي غَيْرِ نِكَاحٍ وَلَوْ فِي مِلْكِ الْيَمِينِ، لَمْ تَحِلَّ لِلْأَوَّلِ،.(3) تفسیر ابن کثیر ج1ص 297.
یعنی جب کو ئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے بعد تیسری طلاق بھی دے دے تو اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ وہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح کرے ، ہم بستری ہو پھر وہ دوسرا خاوند مرجائے یا طلاق دے دے ، پس اگر بغیر نکاح کے لونڈی بنا کر وطی بھی کرلے تو بھی اگلے خاوند ک لئے حلال نہ ہو گی ۔ اسی طرح اگر باقاعدہ نکاح بھی ہو لیکن اس دوسرے خاوندنے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی ۔
فیصلہ :
چونکہ طلاق دہندہ مسمی ثناء اللہ صاحب اپنی بیوی منور سلطانہ کو پہلی طلاق مورخہ 91۔ 11۔24 اور دوسری طلاق91۔12۔25کو بعداز عدت نکاح ثانی کے بعد پھر تیسری طلاق 92۔7۔1 کو دے چکے ہیں ۔ لہذا یہ طلاق بائنہ کبرٰی واقع ہو چکی ہے ، اس لئے جب تک مسمات منور سلطانہ کسی دوسرے شخص کی شرعی بیوی نہیں بن جاتی ہےا س وقت تک ثناء اللہ مذکور پر حرام ہے ۔مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی جھمیلہ میں ہرگز مسؤل نہ ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب