السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں یہ کہ میں مسمی رحمت ولد گہنا قوم میر عالم چاہ باغ والا مو ضع کھوکھے تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ کا رہنے والا ہو ں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو ذیل عر ض کرتا ہو ں کہ میری دختر مسمات رضیہ بی بی کا نکاح ہمراہ مسمی محمد اقبال ولد میاں ماہی قوم میر عالم چک نمبر 545 گ ب تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد سے عر صہ قریب 4 سال ہوئے کر دیاتھا اور مسمات رضیہ بی بی ابنے خاوند کے ہاں رہ کر تقریبا ایک سال حق زوجیت ادا کر تی رہی بعد میں مابین فریقین میں ناچاقی پیدا ہو گئی کیو نکہ مذکور محمد اقبال آوارہ قسم کا آدمی تھا اور اکثر لڑائی جھگڑا کرتا تھا اور زد وکو ب بھی کرتا رہتا اس طرح مذکورہ کے ہاں نہایت ہی تنگدستی کے دن گزارتی رہی جس کی بنا پر خاوند مذکور نے رو برو گواہان ذیل کےمسمات رضیہ بی بی کو تین بار طلاق ،طلاق ،طلاق کہہ کر اپنے نفس پر حرام کہہ کر گھر باہر نکا ل دیا ہو ا ہے اور کوشش مصالحت کے باوجود رجوع نہیں کیا جس کو عر صہ قریب 3کا ہو چکا ہے اور مذکور ہ اب محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتی ، در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، ای علمائے دین سےسوال ہے کہ آیا سہ بار زبانی طلاق کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں ۔ کذب بیانی کا سا ئل خو ذمہ دار ہو گا۔ (سائل ۔ رحمت علی ومسمات رضیہ بی بی )
تصدیق : ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ سوال بالکل صداقت پر مبنی ہے اگر کسی وقت غلط ثابت ہوگا تو ہم تصدیق کنند گا ن اس کے ذمہ دار ہوں گے ہمیں شرعی فتویٰ دیا جانا مناسب ہے ۔
حامد علی ولد لال محمد قوم بھٹی موضع کھوکے تحصیل ننکانہ
محمد نعیم ولد علی قوم امیر عالم سکنہ چاہ باغ والا کھوکے تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسئلہ میں بلا شبہ طلاق واقع ہو چکی ہے ۔ اور اس میں علمائے اہل حدیث اورعلمائے احناف کا قطعا کو ئی اختلاف مروی نہیں ۔ ہاں ، اتنا اختلاف ضرور ہےکہ علمائے احناف کےنزدیک یکجائی تین طلاقیں واقع ہوکر مغلظہ بائنہ متصور ہوتی ہے ۔اور اس صورت میں ان کے نزدیک حلالہ کے بغیر کو ئی چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔ جب کہ علمائے اہل حدیث اور محقیقن علمائے شریعت کے نزدیک یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعا واقع ہو تی ہے ۔ اور عدت کے اندر اند ر شوہر کو اپنی مطلقہ سے رجوع کر لینے کا شرعا حق حاصل ہوتا ہے ۔ اور بعد از عدت بلا حلالہ کے دوبارہ نکاح ثانی کی اجازت ہوتی ہے ۔ تاہم صورت مسؤلہ میں بالا اتفاق علماء طلاق واقع ہو چکی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرۃ: 229) ’’(رجعی ) طلاق دوتک ہیں ، پھر یا بد ستور بیوی کو روک رکھنا ہے یا پھر بھلائی سے اس رخصت کردینا ہے ۔،،
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
أَيْ إِذَا طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ، فَأَنْتَ مُخَيَّرٌ فِيهَا مَا دَامَتْ عِدَّتُهَا بَاقِيَةً، بَيْنَ أَنْ تَرُدَّهَا إِلَيْكَ نَاوِيًا الْإِصْلَاحَ بِهَا وَالْإِحْسَانَ إِلَيْهَا، وَبَيْنَ أَنْ تَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَتَبِينَ مِنْكَ،(1)(تفسیر ابن کثیر ج1 ص 272.)
کہ جب تو اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے بیٹھے تو عدت کے اندر اندر تجھے یہ اختیار حاصل ہے کہ نیک نیتی اور بیوی کو بھلائی کے اردہ سے رجوع کر کے آباد ہو جائے ۔یا پھر ابنی مطلقہ کو اس کے حال پر چھوڑ دے کہ اس کی عدت پوری ہو جائے تاکہ وہ تجھ سے جدا ہو جائے ۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت شریفہ اور امام ابن کثیر کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ عدت گزر جانے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔طلاق خواہ رجعی ہو ، خواہ پہلی یا دوسری طلاق ہو ۔ چنانچہ قرآن میں ہے :2۔{ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ } [البقرة: 228]
’’ اور مطلقہ عورتیں حیضوں تک آپ کو ٹھہرائے رکھیں ۔،، یعنی نکاح ثانی نہ کر یں۔
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
هَذَا الْأَمْرُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلْمُطَلَّقَاتِ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ مِنْ ذَوَاتِ الْأَقْرَاءِ، بِأَنْ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، أَيْ: بِأَنْ تَمْكُثَ إِحْدَاهُنَّ بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِهَا لَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ ثُمَّ تَتَزَوَّجَ إِنَّ شَاءَتْ، (2)تفسیر ابن کثیر :ج1 ص 229.
کہ اللہ تعالی ٰ کا حکم ہے کہ شوہر دیدہ مطلقہ عورت کو تین آجانے سے پہلے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح نہ کرے ۔معلوم ہوا طلا ق کی عدت گزر جانے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔رہا یہ سوال کہ طلاق دہندہ مسمی محمد اقبال ولد میا ماہی نے زبانی طلاق ثلاثہ دی ہے ۔ تو جواب یہ ہے کہ طلاق زبانی ہو یا تحریری دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ اس میں علماء باہم متفق ہیں ۔چنانچہ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاویٰ میں ہے :’’واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا ۔زبانی دے یا تحریری تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جائے گی ۔اس کی زوجہ اس کو منظور کے یا نہ کرے ۔ طلاق کا واقع ہونا زوجہ کی منظور ی پر موقوف نہیں ۔( فتاوی ٰ ) نذیریہ ج3 ص 73) اور اسی طرح مفتی محمد شفیع حنفی آف کر اچی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں ۔(ملاحظہ ہو فتاویٰ دار العلوم دیو بند جلد نمبر 2 ص 658)
فیصلہ ۔ صورت مسؤلہ میں سوال اہل حدیث کے نزدیک ایک رجعی طلاق واقع ہو ئی ہے ۔اور احناف کے نزدیک تینوں پڑ چکی ہیں ۔ تاہم اہل حدیث کے نزدیک بھی نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔کیونکہ سوال کے مطابق مسمی محمد اقبال نے اپنی بیوی مسمات رضیہ بی بی کو آج سے تقریبا 3 سال پہلے طلاق دی تھی ۔ لہذا عدت گزر چکی ہے اور نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ اس لئے مسمات رضیہ بی بی کو
شرعا حق ہے کہ وہ نکاح کر سکتی ہے جس کی اجازت افسر مجاز سے ضروری ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ذمہ دار نہ ہوگا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب