السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتےہیں علمائےدین اس مسئلہ میں یہ کہ میں مسمی عبد العزیز ولد فولا قوم گجر محلہ دھوپ سڑی 240 موڑ جڑ انوالہ ضلع فیصل آباد کا رہن والا ہوں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنامقصود ہے جو ذیل میں عرض کرتاہوں : یہ کہ میری حقیقی بھانجی مسمات رابعہ بی بی کانکاح ہمراہ مسمی سردار ولد رحمہ قوم گجر چک نمبر 86 شمالی تحصیل وضلع شر گودھ سے عرصہ قریب 14 سال ہوئے کرویا تھا اور مسمات رابعہ بی بی اپنے خاوند کے ہاں رہ کر حق زوجیت ادا کرتی رہی اس کے بعد دونوں فریقین میں ناچاکی پیدا ہو گئی کیو نکہ مذکور سرادار ولد رحمہ آوارہ قسم کا آدمی تھا اور اکثر لڑائی جھگرا کرتا تھا اور میری بھانجی .
رابعہ بی بی ،مذکور کے ہاں نہایت ہی تنگدستی کے دن گزارتی رہی بالآخر مذکورنے میری بھانجی کو مارپیٹ کر اور اسے اپنے نفس پر حرام کہہ کہ اور زبانی تین بار طلاق ،طلاق ،طلاق دے کر اپنے گھر سے باہر نکال دیا ہوا ہے جس کو عرصہ قریب 10 سال کا ہوچکا ہے اور شرعا جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں کذب بیانی کا سائل خود ذمہ دار ہوگا (سائل :عبد العزیز حقیقی ماموں مسمات رابعہ بی بی ) تصدیق :ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتےہیں کہ سوال بالکل صداقت پرمبنی ہے ،اگر غلط ثابت ہو تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے شرعا فتویٰ دیا جانا درست ہے ۔(سائل محمد ولد نتھا قوم گجر چک نمبر 86 تحصیل وضلع سرگودھا غلام محمد ولد عبد اللہ قوم گجر چک نمبر 86 شمالی تحصیل وضلع سرگودھا )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسؤلہ میں بشرط صحت سوال مسؤلہ میں بلاشبہ طلاق واقع ہو چکی ہے اور اس میں علمائے اہل حدیث اور علمائے احناف کا قطعا کو ئی اختلاف نہیں ۔ ہاں اتنا اختلاف ضرور ہے کہ علمائے احناف کے نزدیک یکجائی تین طلاقیں تینوں واقع ہو کر طلاق مغلظ بائنہ متصور ہوتی ہے اور اس صورت میں ان کے نزدیک حلالہ کے بغیر کو ئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا ۔جب کہ علمائے اہل حدیث اور محقیقن علمائے شریعت کے نزدیک بکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعا واقع ہو تی ہے اور عدت کے اندر اندر شوہر کو مطلقہ سے رجو ع کرلینے کا شرعا حق حاصل ہوتا ہے اور بعد از عدت بلا حلالہ ک دوبارہ نکاح ثانی کی اجازت ہوتی ہے ۔تاہم صورت مسؤلہ میں بالاتفاق واقع ہوچکی ہے ،چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ٢٢٩﴾...البقرة
کہ (رجعی ) طلاقیں دو تک ہیں ،پھر بدستور بیوی کو روک رکھنا ہے یا پھر بھلائی سے اس کو رخصت کردینا ہے ۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے :أی إذا طلقتھا واحدۃ او اثنتین فانت مخیر فیھا مادامت عدتھا باقیة بین ان تردھا الیک ناویا لاصلاح بھا والاحسان الیھا وبین ان تترکھا حتی ٰ تنقضی عدتھا فتبین منک. (1)تفسیر ابن کثیر ج1 ص272.
کہ جب تواپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقین دے بیٹھے تو عدت کےاندر اندر تجھے یہ اختیار حاصل ہے کہ نیک نیتی اور بیوی کی بھلائی کے ارادے سے رجوع کر کے آباد ہو جائے یا پھر اپنی مطلقہ کو اس حال پر چھوڑ دے کہ اس کی عدت پوری ہو جائے تاکہ وہ تجھ سے جدا ہو جائے ۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت شریفہ اور امام ابن کثیر کی اس تفسیر سےمعلوم ہوا کہ عدت گزر جانے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے: طلاق خواہ رجعی ہی ہو خواہ پہلی ہو یا دوسری طلاق ہو۔
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ ... ٢٢٨﴾...البقرة
’’اور مطلقہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو ٹھہر ا ئے رکھیں ۔،، یعنی نکاح ثانی نہ کریں ۔
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
هَذَا الْأَمْرُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلْمُطَلَّقَاتِ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ مِنْ ذَوَاتِ الْأَقْرَاءِ، بِأَنْ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، أَيْ: بِأَنْ تَمْكُثَ إِحْدَاهُنَّ بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِهَا لَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ ثُمَّ تَتَزَوَّجَ إِنَّ شَاءَتْ،(تفسير ابن كثيرج1ص299)
’’اللہ تعالی کاحکم ہے کہ جب شوہر دیدہ مطلقہ عورت کو حیض آجانے سے پہلے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح نہ کرے۔،، معلوم ہو ا کہ طلاق کی عدت گزر جانے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔رہا یہ سوال کہ طلاق دہندہ مسمی سردار ودلد رحمہ قوم گجر نےزبانی طلاق ثلاثہ دی ہےتو جواب یہ ہے کہ طلاق زبانی ہو یا تحریر بلاشبہ دونوں صورتوں میں طلاق و اقع ہوجاتی ہے : اس میں بھی محدثین اور احناف باہم متفق ہیں، چنانچہ شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے فتویٰ میں ہے ۔
واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کےمطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا زبانی دے یا تحریر ی تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جائے گی ۔طلاق کا واقع ہونا زوجہ کی منظوری پر موقوف نہیں ۔(فتاوى نزيرية ج3ص73)
اور اسی طرح مفتی محمد شفیع آف کراچی حنفی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں ملاحظہ ہو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج2 ص658۔
فیصلہ صورت مسؤلہ میں بشرط صحت سوال اہل حدیث کے نزدیک ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے اوراحناف کےنزدیک تینوں واقع ہو چکی ہیں ، تاہم اہل حدیث کے نزدیک بھی نکاح ٹوٹ چکا ہےکیونکہ سوال کی خط کشیدہ عبارت کے مطابق مسمیٰ سردار ولد رحمہ نے اپنی بیوی مسمات رابعہ بی بی بھانجی عبد العزیز قوم گجر کو آج سے 10 سال پہلے طلاق دی ہے جس کا مطلب ہےعدت گزرچکی پس نکاح ٹوٹ چکا ہے ،لہذا مسمات رابعہ بی بی شریعت کےمطابق نکاح کر سکتی ہے مفتی کسی قسم کا قانونی ذمہ دار نہ ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب