السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فلک شیر ولد محمد حنیف قوم کھر ل سکنہ ملکہ حاجی تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ مورخہ 92۔4۔2 کوا پنی منکوحہ بیوی مقبول بیگم دختر عطا محمد قوم کھرل سکنہ ملکہ حاجی کو طلاق ،طلاق ،طلاق دے دیتا ہے اور اپنے بچے والدہ کو پرورش کے لئے ودے دیتا ہے ۔
عالی جاہ! اس مسئلہ کے بارے میں بتائیں کہ مسماۃ مقبول بیگم زوجہ فلک شیر کوطلاق ہوگئی یا نہیں ؟جناب سے دوخواست ہے کہ اس کا فتویٰ جار ی کیاجائے (سائل :رائے منیر احمد ولد رائے عطا محمد قوم کھر ل ساکن ملکہ حاجی )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسئلہ میں ہر ایک مکتب فکر کے نزدیک طلاق واقع ہو چکی ہےاس میں سنی ،بریلوی ،دیوبندی اور کسی اہل حدیث عالم دین اور مفتی کو قطعا کو ئی اختلاف نہیں کہ طلاق جب شریعت کے مطابق ہو تحریری ہویا زبانی کلامی ہو۔ بیو ی وصول کرے یا نہ کرے ، تسلیم کرے یا نہ کرے طلاق بہرحال واقع ہو جاتی ہے ۔
احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ قویہ معتبر ہ ملاحظہ فرمائیے :
(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ . (1)صحیح البخاری :باب الطلاق فی الاغلال والبکرہ والبیان ج 793،794
(2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ یتکلموا او یعملوا بہ. (2)صحیح مسلم :با ب بیان ما تجازاللہ عن حدیث النفس ج1ص 78
ان دونو ں احادیث صحیحہ کا تر جمہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نےمیری امت کے دلو ں کےخیالات اور وساوس کو نظر انداز کر رکھا ہے جب تک وہ زبان سے بو ل کر ان کو ادانہ کر ے یا ان عمل درآمد نہ کرے ۔
اس حدیث نمبر 1کے پہلے جملہ مالم تعمل اور حدیث نمبر 2 کے دوسرا جملہ ویعملوا اس حقیقت پر دلالت کر رہے ہیں کہ تحریری طلاق واقع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پہلی حدیث کا آخری جملہ او تتکلم اور دوسری حدیث کا پہلا جملہ مالم یتکلموا اس بات پر صاف صاف دلالت کررہے کہ زبانی کلامی طلاق بھی بلاشبہ واقع ہو جاتی ہے ۔شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی پہلی حدیث کے پہلے جملے مالم تعلم کی شرح میں دو ٹوک لکھتے ہیں :
إستدل به علی ان من کتب الطلاق طلقت إمرأته لأنه عزم بقلبه وعمل بکتابته وھو قول الجمہور ۔(1)کتاب فتح الباری شرح صحیح البخاری ج9 ص 324وطبع دیگر 375 ۔تحفه الاحوذی شرح التر مذی ج 2ص215 ونیل الاوطارج 6 ص276۔طبع 245
یہ حدیث دلیل ہےکہ تحریری طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔جمہور علمائے امت کا یہی فتویٰ اور قول ہے ۔ان دونوں احادیث صحیحہ قویہ معتبر ہ غیر معللہ ولا شاذ سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ صورت مسؤلہ میں طلاق بلاشبہ واقع ہوچکی ہےاور اس میں کسی بھی مفتی کو ہرگز کو ئی اختلاف نہیں ۔مزید سنئے:
مشہور سکالر السید محمد سابق مصری ارقام فرماتےہیں :
یقع الطلاق بکل ما یدل علی إنھاءالعلاقة الزوجیة سواء کان ذلک باللفظ او بالکتابة الی الزوجة ام بالإشارة من الأخرس او بإرسال الر سول وقال الشافعی الفاظ الطلاق الصریحة ثلاثة الطلاق والفراق السراح وھی المذکورۃ فی القرآن العطیم. (2) فقة السنة ج2 ص216.217 طبع مصر
کہ ہر گفتگو یا تحریر جو علاقہ زوجیت کے انقطاع پر دلالت کرنے والی ہوگی اس کے استعمال سے طلاق پڑجائے گی ۔ خواہ زبانی کلامی ہی طلاق کا لفظ بو لا جائے یا بیوی کے نام طلاق کی تحریر ہو یا طلاق کی مجلس میں گونگے شوہر کا اشارہ طلاق ہو یا بیوی کی طرف کا قاصد بھیجا جائے ۔ ان چاروں طریقو ں میں سے جو طریقہ بھی استعمال کیا جائے طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
لہذا اس تحریر سے ثابت ہوا کہ طلاق تحریری ہویا زبانی کلامی ہو بہر حال واقع ہوجاتی ہے ۔پس صورت مسؤلہ میں بالاتفاق اور بلاشبہ طلاق واقع ہوچکی ہے اور اگر عدت گزرچکی ہےتو نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ۔مفتی کسی قانونی سقم او رعدالتی کاروائی کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب