السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چارپائی مسجد میں لانا منع ہے کیونکہ یہ پلید ہے۔گذارش ہے کہ از روئے قرآن و حدیث اور فقہ حنفیہ اس مسئلہ کا حل فرمایا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں ہے :
«عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیه وآله وسلم کاناذا اعتکف طرح له فراش اوصنع له سریر وراء استو انة التوبة» (ابن ماجه مصری جلد1 صفحه540)
’’یعنی ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف بیٹھتے تو آپ کے لیے ستون توبہ کے پیچھے فرش یا چارپائی بچھائی جاتی۔‘‘
علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پر لکھتے ہیں:
«قوله وراء استو انة التوبة هی استوانة ربط بها رجل من الصحابة نفسه حتی تاب الله علیه وفی الزوائد اسناده صحیح و رجاله موثقون والله اعلم۔»
توبہ کے ستون سے مراد وہ ستون ہے جس سے ایک صحابی نے خود کو کسی قصور پر باندھ دیاتھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کرلی اور زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں او را س کے راوی ثقہ ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ علیہ شرح منتقٰی میں اس حدیث پر لکھتے ہیں:
«وفیه دلیل علیٰ جواز الفراش ووضع السریر للمعتکف فی المسجد۔»( نیل الاوطار جلد4 صفحه 147)
یعنی اس میں دلیل ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے والے کے لیے مسجد میں بستر اور چارپائی بچھانی جائز ہے۔ کلمہ اوشک کے لیے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک بچھاتے۔ کبھی صرف بستر کبھی چارپائی۔ اگر بالفرض شک کے لیے ہوتو بھی چارپائی کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ بستر بالاتفاق جائز ہے تو اس کے مقابلہ میں چارپائی بھی جائز ہوگی۔کیونکہ شک میں دونوں جانب برابر ہوتی ہیں۔
پس جب حدیث صحیح سےایک مسئلہ ثابت ہوگیا تو کسی حنفی یا اہلحدیث کو اس میں چون و چرا کی گنجائش نہ رہی کیونکہ حدیث صحیح پر سب کا ایمان ہے۔ خاص کرجو لوگ چارپائی کو پلید کہتے ہیں اور اس وجہ سے چارپائی بچھانے کو ناجائز کہتے ہیں وہ غور کریں کہ حدیث کو جھٹلا رہے ہیں۔
پھر حنفیہ کی کتب فقہ در مختار و ردّ المختار جلد اوّل صفحہ 486 وغیرہ میں لکھا ہے کہ:
جوتا میں نماز افضل ہے کیونکہ مسجد نبوی میں صحابہؓ جوتا سمیت نماز پڑھتے تھے تو کیاچارپائی جوتا سے بھی زیادہ پلید ہوگئی؟
مزید رد المختار میں لکھا ہے:
ہم سے جنہوں نے جوتا سمیت مسجد میں آنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اب مساجد میں فرش اور صفیں بچھائی جاتی ہیں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے اورمسجد نبوی میں کنکر بچھے ہوئے تھے او رانہی پر نماز پڑھتے تھے۔اس لیے وہاں خطرہ نہ تھا۔ غرض جوتا پلید نہیں نہ پلیدی کی وجہ سے کسی نے روکا ہے تو پھر چارپائی کس طرح پلید ہوگئی؟ علاوہ اس کے جوتا سمیت عام طور پر داخل ہونے سے فرشوں اور صفوں وغیرہ کے خراب ہونے کا جو خطرہ ہے وہ چارپائی میں نہیں کیونکہ اوّل تو چارپائی عام طور پر بچھائی نہیں جاتی او رجب کبھی کوئی چارپائی بچھائی جاتی ہے تو فرشوں اور صفوں سے آگے پیچھےبچھائی جاتی ہے۔ نیز اس کے پائے صاف ہوتے ہیں۔ فرش یا صف وغیرہ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ پس جن لوگوں نے چارپائی کو نجس کہا او راس وجہ سے مسجد میں اس کا بچھانا ناجائز قرار دیا انہوں نے حدیث کا بھی خلاف کیا اور فقہ کا بھی ۔ خدا ضد و نفسانیت سےمحفوظ رکھے او رانجام بخیرکرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب