سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(316) الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ مفسرین کی تصریحات میں

  • 14416
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5751

سوال

(316) الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ مفسرین کی تصریحات میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ مفسرین کی تصریحات  میں واضح کریں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں طلاق کی تین قسمیں ہیں :

 آئیے مفسرین کرام کی تصریحات پڑھ لیں ۔ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ کا کیا  مطلب ہے؟

بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت طلاق  رجعی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔اور مطلب یہ لیتے ہیں کہ طلاق رجعی دو طلاقین ہیں ۔جن کے بعد رجوع کرنے اور عورت کو چھوڑ دینے ،دونوں کی گنجائش ہے ۔تین دفعہ طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں  ہے۔

کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ  اس آیت میں مسلمانوں کی شرعی طلاق دینے کا طریقہ بتایاگیا ہے ۔مطلب یہ کہ طلاق یکے بعد دیگر ے بس دوبار ہونی چاہیے ۔جن کےبعد عورت سےرجوع کرنے یااسے چھوڑ دینے کا موقع رہتاہے ،لیکن اگر کو ئی شخص اس کےبعد بھی طلاق دے دےتو پھر یہ عورت اس پر حرام ہوجائے گی ۔ان دواقوال کے علاوہ کچھ اور اقوال بھی ہیں ،لیکن  بنیادی  اہمیت کے یہی دوقول ہیں ۔

امام المفسرین این جریر دونوں قول بیان کرتے ہیں او رپہلے قول کو ترجیح دیتےہیں ۔

پہلے قول کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

إختلف أھل التاویل فی تاویل ذلک فقال بعضھم  ھو دلالة علی عدد الطلاق الذی یکون الرجل فیه الرجعة والعدد الذی تبین به زوجة منه.

’’تفسیر کرنے والوں کا اس آیت کا تفسیر میں اختلاف ہے ۔بعض مفسرین نے کہا  ہے کہ اس آیت میں طلاق کی تعدا بتائی گئی ہے جس میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے۔اور وہ تعداد جس میں عورت شوہر سے جدا ہو جاتی ہے ۔موصوف فرماتے ہیں کہ اہل عرب میں طلاق دینے کے بارے میں کوئی حد نہ تھی ۔وہ طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ۔اس سلسلہ میں مذکور بالا انصار ی صحابی وغیرہ کے کچھ آثار واقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

تاویل الأیة علی ھذا الخبر الذی ذکرنا عدد الطلاق الذی لکم ایھا الناس فیه علی أزواجکم الرجعة اذا کن  مدخولا بھن تطلیقان ثم الواجب علی من راجع بکم بعد التطلقتین إمسا ک بمعروف او تسریح بإحسان لانه لارجعةله بعد التطلیقین أن سرحھا فطلقھا الثالثة.

اس روایت کےمطابق جو ہم نے قرآن کی آیات کی تفیسر یہ ہوگی کہ اے  لوگو! طلاق کی وہ تعداد جس میں تمہارے لئے اپنی بیویوں کے سلسلہ میں جب کہ ان سی مقاربت ہوچکی ہورجوع کاحق ہو دوطلاقیں ہیں ۔پھر تم میں سے جو شخص دوطلاقوں کے بعد رجو ع کرے اس پر واجب ہے کہ وہ بھلے طریقہ پر عورت کو روک لے یا پھر عمدگی کے ساتھ چھوڑ دے ۔کیونکہ دو طلاقوں کے بعد اسے رجوع کاحق نہیں :اگر اسے چھوڑ دیا اور تیسر ی طلاق دے دی ۔دوسرے قول کا ذکر وہ درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:

وقال اٰ خرون انما انزلت هذه الأیة علی نبی اللہ صلی اللہ علیه وسلم تعریفا من اللہ تعالی ذکرہ عبادہ سنة طلاقھم نسائھم إذا أرادوا اطلاقھن لا دلالة علی القدر الذی تبین به المرأة من زوجھا.

’’کچھ دوسرے لوگوں نےکہا کہ یہ آیت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پراس لئے اتر ی ہے تاکہ اللہ اپنے بندوں کوطلاق کا طریقہ سکھلائے ۔جب وہ اپنی بیویوں کوطلاق دینا چاہیں ،نہ اس لئے کہ وہ ان پر طلاق کی وہ تعداد بیان کرے جس سے عورت اپنے خاوند سے جدا ہوجاتی  ہے ۔

اس کے بعد امام ابن جریر اپنی رائے کااظہار حسب ذیل الفاظ میں ارقام فرماتےہیں :والذی أولی بظاہر التنزیل ما قاله عروة وقتادة ومن قال مثل قولھم أن الفاظ ھی

دلیل علی عدد الطلاق الذی یکون به التحریم ویطول به الرجعة فیه والذی یکون فیه الرجعة منه. (1)جامع البیان پارہ دو م تفسیر آیت مرتان.

’’اور قرآن کےظاہر الفاظ سے قریب بات وہ ہے جسے عروۃ قتادہ اوران جیسی بات کہنے والوں نےکہا ہے ،یعنی یہ آیت طلاق کی تعداد پر دلیل ہے اس تعداد جس سے عورت حرام ہو جاتی ہے اور رجوع کا موقع ختم ہو جاتاہے اور اس تعداد پر جس میں رجوع کاحق باقی رہتا ہے ۔،،

علامہ ابوبکر جصاص رازی حنفی احکام القرآن میں ان آیات پر مفصل بحث کرتے ہوئے تین مفہوم بیان فرماتے ہیں :

قد ذکرت فی معناه وجوه أحدھا إنه بیان للطلاق الذی تثبت معه الرجعة یروٰی ذلک عن عروة بن الزبیر وقتادة والثانی أنه بیان لطلاق السنة المندوب إلیه ویروٰی ذلک عن ابن عباس ومجاھد والثالث أنه أمر بأنه إذا أراد أن یطلقھا ثلاثا فعلیه تفریق الطلاق فیتضمن الأمر بالطلاق مرتان ثم ذکر بعدھما الثالثة. (1)احکام القرآن لابی بکر جصاص .

اس آیت کے معنی میں کئی اقوال بیان کئے گئے ہیں ایک قول یہ ہے اس طلاق کا بیان ہےجس کے بعد رجعت کا حق ہوتاہے یہ قول عرون بن زبیر اور قتادہ سے مروی ہے ۔دوسر قول یہ ہے کہ یہ طلاق سنت کا بیان ہے ۔جو طلاق کا پسندیدہ طریقہ ہے ،اس قول کی روایت ابن عباس اور مجاہد سے کی گئی ہے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ حکم ہے کہ جب کوئی تین طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اس پر واجب ہےکہ وہ طلاق الگ الگ کرکے دے ۔ اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ صرف دوبار طلاق  دی جائے اسے کے بعد تیسری طلاق کا ذکر کیا گیاہے ۔آخری دواقوال کی رو سے ان آیات میں طلاق کےایک ایک کر کے دینےکا ذکر یا حکم ہے نہ کہ ایک بار میں تین طلاق دینے کا ۔پہلے قول کی روسےبھی یہ آیت یکجائی تین طلاق دینےکے حکم میں صریح نہیں ہے کیونکہ اس قول کی رو سےاس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق رجعی دو طلاقیں ہیں جن کےبعد چھورنے اور رجوع کرنے دونوں کا حق باقی رہتاہے ۔دو طلاق کے بعد اگر تیسری طلاق دےدی جائےتو یہ حق باقی نہیں رہتا ۔تین طلاق یکبار گی دینے کا تذکرہ آیت میں کسی مفہوم کی رو سے نہیں ۔

حضرت علامہ شمس پیرزادہ امیر جماعت اسلامی مہار اشڑاسٹیٹ ،انڈیا۔اس آیت کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں :اس آیت میں مرتان دومرتبہ کا لفظ جوآیا ہے ۔اس سےطلاق کا لفظ دہرانا یا عدد کی صراحت کےساتھ طلاق دینا لیا جاتا ہے ۔اس بناپر طلاق ،طلاق ،طلاق یاتین طلاق کہہ دینے  پر تین طلاقوں کاحکم لگایا جاتاہے حالانکہ مرتان کا مطلب لفظ طلاق کو دہرانا نہیں بلکہ دوسری دفعہ طلاق دیناہے۔ اس آیت کامطلب یہ ہے کہ دو دفعہ دینے کے بعد رجوع کاحق باقی نہیں رہتا۔اس کا یہ مطلب کس طرح صحیح ہوگا کہ اگر کسی نےبیک وقت طلاق ،طلاق ، طلاق کہہ دیاتو رجوع کاحق باقی نہیں رہا اور طلاق مغلظہ ہوگئی ۔حالانکہ اس شخص نے ایک ہی دفعہ طلاق دی ہے ۔لفظ مرتان کا جو مطلب لیاجاتاہے وہ درج ذیل تین وجوہ ہیں صحیح نہیں ہے ۔

اولا :لغت عربی میں مرتان کامطلب  مرۃ بعد مرۃ ہے یعنی ایک دفعہ کےبعد دوسری دفعہ نہ کہ محض لفظی تکرار اوراس کی نظیریں قرآن میں ملتی ہیں مثلا ایک جگہ فرمایا:

﴿ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ... ١٢٦﴾...التوبة

’’کیا یہ لوگ دیکھتےنہیں کہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ انہیں آزمائش میں ڈالا جاتاہے ۔،،اور دوسری جگہ فرمایا گیا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ.... ٥٨﴾...النور

’’اے ایمان والو تمہارے مملوک (غلام ،لونڈی ) اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں جازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ۔ایک نماز فجر سے پہلے دوسرے جب تم دوپہر کےوقت آرام کے لئے کپڑے اتار رکھتے  ہو اور تیسرے عشاء کی نماز کےبعد یہ تین وقت تمہاری بے پر دگی کےوقت ہیں۔،،

اس آیت کےآخر میں تین اوقات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ظاہرہے کہ یہاں ثلث مرات (تین اوقات میں) کامطلب الگ الگ تین اوقات ہیں ۔نہ کہ زمانے واحد میں تین اوقات کا اجماع ۔اس سے واضح ہوا کہ مرتان میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔اگر کوئی مثال اجماع کی پیش کی جاسکتی ہےتو وہ اعیان کی ہوگی نہ کہ افعال کی ۔کیونکہ فعل میں زمانہ واحد میں مرتان کا اجتماع ممکن نہیں ۔

ثانیا: رمی جمار کی مثال ہے۔ سات کنکریاں مارنے کا حکم دیاگیا ہے ۔اگر کوئی شخص سات مرتبہ ایک ایک کنکر ی مارنے کے بجائے ایک ساتھ سات کنکریاں مارے گا تو حکم کی تعمیل نہیں ہو گی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک ہی رمی شمار ہوگی ۔اسی طرح اگر کوئی شخص یہ الفاظ کہے کہ میں تینتیس بار سبحان اللہ کہتا ہوں توایک ہی تسبیح شمار ہوگی نہ کہ  تینتیس ۔

ثالثا: چار قسموں کی مثال ہے ۔جس کا حکم لعان کے سلسلہ میں دیا گیاہے ۔اگر کوئی شخص الگ الگ چار قسمیں کھانے کے بجائے ایک ساتھ کہہ دے کہ میں چار قسمیں کھا کر کہتا ہوں تواس ایک ہی قسم شمار ہوگی نہ کہ چار ۔مرتان کی بحث کے لئے ملاحظہ ہو علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد ج 4ص59۔

اگر مذکورہ آیات میں طلاق کاعدد ہوتا تو مرتان کی جگہ لفظ اثنتان استعمال کیاجاتا ۔اس سے ثابت ہواکہ مرتان سے مراد لفظ طلاق کی تکرار یا عدد نہیں ہے :بلکہ الگ الگ دو دفعہ طلاق دینا ہے ۔

چنانچہ امام  رازی لکھتے ہیں :طلقوا مرتیں یعنی دفعتین.

’’دو مرتبہ طلاق دو یعنی دو دفعہ طلاق دو،، (تفسیر کبیر :ج 2ص26)

مزید لکھتے ہیں :ان الطلاق المشروع متفرق لان المرات لا تکون الا بعد تفرق بالاجماع . (1)تفسیر کبیر ج2 ص26

’’مشروع طلاق یہ ہے کہ الگ الگ طلاق دی جائے کیونکہ بالاجماع مرات تفرق کےبعد ہی ممکن ہے۔،،لہذا جب دو طلاقیں جومجموعی طور پر ایک ہی دفعہ دی گئی ہوں دوشمار نہیں ہوں گی تو تین طلاقیں جو مجموعی طور پر ایک ہی دفعہ دی گئی ہوں کس طرح تین شمار ہوں گی ۔پھر جس پس منظر میں تین طلاقوں کاحکم بیان کیا گیا اس کو بھی اگر ملحوظ رکھا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔زمانہ جاہلیت میں بیک وقت کئی طلاقیں دینے کارواج نہیں تھا۔بلکہ بار بار طلاقیں دی جاتی تھیں بار بار رجوع کیا جاتا تھا۔اس لئے  الطلاق مرتان کا مفہوم یہی بار بار کی طلاقیں ہو گا نہ کہ بیک وقت دی جانے والی متعد د طلاقیں ۔سورہ طلاق میں ہدایت کی گئی کہ جب طلاق دی جائے تو عد ت کے لئے دی جائے آیت:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ... ١﴾ ...الطلاق

’’اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت کے لئے طلاق دو اور عدت کو شمار کرو۔،،

عدت کے لئے طلاق دینے کامطلب یہ ہے کہ ایسے وقت میں طلاق دی جائے جب کہ عدت کا آغاز ہوسکے ۔جو شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے وہ عدت کا لحاظ نہیں کرتا ۔کیونکہ پہلی طلاق دیتے ہی عدت شروع ہوگئی لیکن دوسری اور تیسری طلاق میں عدت کا لحاظ نہیں رہا۔حالانکہ ہر طلاق کے لئے عدت کا لحاظ ضروری ہے ۔قرآن نے نہ صرف حکم دیا ہے کہ عدت کا لحاظ کرکے طلاق دی جائے بلکہ عدت کے اندر رجوع کرنے کا بھی حق دیا ہے ۔چنانچہ ارشاد ہے ۔

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ...٢٣١﴾...البقرة

کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے ۔تو بھلے طریقہ سے روک لو یا پھر معروف کے ساتھ رخصت کر دو۔یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ جب عدت پوری ہورہی ہو تو بھلے طریقہ پر روکا جاسکتا ہے،یعنی عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کیا جاسکتاہے ۔سوال یہ ہے کہ عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کا یہ حق جو اللہ تعالی ٰ نے مرد کو دیا ہے کس نے ساقط کیا؟ گر کوئی نص ساقط کرنے کی موجود ہے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا ۔لیکن اگر ایسی کوئی نص موجود نہیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ تیسری دفعہ کی طلاق سے پہلے عدت کے اندر مرد کو رجوع کاحق ہے۔لہذا بیک وقت دی ہوئی تین  طلاقوں کے بعد بھی رجوع کا حق باقی رہتا ہے بالفاظ دیگر تیسری دفعہ کی طلاف دو دفعہ دی ہوئی ،طلاق رجعی کی بتد ہی واقع ہوتی ہے نہ کہ بیک وقت ۔اللہ تعالی ٰ نے الگ الگ طلاقیں دینے ہی کا اختیار مرد کو دیا ہے جیسا کہ الطلاق مرتان سے ظاہر علامہ ابو بکر جصاص حنفی آیت الطلاق مرتان کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

تضمنت الأمر بایقاع الإثنتین فی مرة فھو مخالف لحکمھما. (1)احکام القرآن ج 1 ص 280.

یعنی آیت  الطلاق مرتان دوطلاق دو مرتبہ میں واقع کرنے کے امر کو شامل ہےتو جس نے دو طلاقیں بیک دفعہ ایک طہر میں دے دیں اس نے اس حکم الٰہی کی مخالفت کی ۔

محدث ابوالحسن سندھی حنفی تصریح فرماتے ہیں:قوله تعالیٰ ألطلاق مرتان إلی قوله ولاتتخذوا اٰیت اللہ ھزوا فان معناہ التطلیق الشرعی تطلیقة علی التفریق دون الجمع والإرسال مرة واحدة ولم یرد بالمرتین التثنیة ومثله قوله تعالی ثم ارجع البصر کرتین أی کرة بعد کرة لا کرتین اثناء(1)حاشیه سنن النسائی ج2ص 81۔مطبع انصاری دھلی

یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طلاق متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری ہونی چاہیے ۔نہ کہ ایک ہی بار اکٹھی ۔مرتان سے مراد تثنیہ نہیں ہے جیساکہ آیت ثم ارجع البصر کرتین میں ایک مرتبہ کے بعد  دوسری مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھنے کا حکم دیا گیاہے ۔

مولانا محمد تھانوی مولانا اشرف علی تھانوی کے استاذ بھی اس آیت کی تفسیر میں تقریبا یہی لکھا ہےاور اس معنی کی تعیین وتائید کی ہے ۔فرماتے ہیں :

أن قوله تعالی الطلاق مرتان معنا مرة بعد مرة فالتطلیق الشرعی  علی التفریق دون الجمع والإرسال . .(2)حاشیه سنن النسائی ج2ص 99

 ’’ آیت کامطلب یہ ہے کہ ایک طلاق کےبعد دوسری طلاق دی جائے ،پس طلاق شرعی وہ ہے جو متفرق طور پر متفرق طہروں میں دی جائے نہ کہ بیک وقت ایک مجلس میں ۔

مشہور مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی ﷫ الطلاق مرتان کی تفسیر میں تصریح فرماتےہیں –

وکان القیاس أن لا تکون الطلقتان المجتمعان معتبرۃ شرعا وإذا لم یکن الطلقتان المجتمعتان معتبرة لم یکن الثلاث المجتمعة معتبرة بالطریق الاولی لوجوھھما  فیھما.

’’قیاس کاتقاضا یہ ہےکہ مجموعی طور پر دی گئی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں گی تو تین اکٹھی کا تو بدرجہ اولیٰ اعتبار نہیں ہوگا،

اس لئے کہ وہ دونوں مع ایک زائد تین کے اندر موجود ہیں ۔

الشیخ ابوبکر جابر الحزائری  الطلاق مرتان کے تحت لکھتے ہیں :

یطلقھا ثم یردھا ثم یطلقھا ثم یردھا ای یملک الزوج  الارجاع فی طلقتین أما أن طلق الثالثة فلا یملک ذلک ولا ترجع حتی تنکح زوجا غیرہ. .(3)ایسر التفاسیر :ج1ص 413.

’’مرتان کا مطلب یہ ہے کہ ایک مجلس میں ایک طلاق دے، پھر رجوع کرلے ،پھر دوسری بار دوسری طلاق دے اور عدت گزرنے سےپہلے رجوع کرلے ۔یعنی ایک مجلس میں ایک ہی طلاق دینے کا حکم ہے ایک ساتھ دویاتین طلاق دینے کی اجازت نہیں-بہر کیف یہ بات بلاخوف تر دید کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیات ایک مجلس میں تین طلاق دینے کے بارے میں خاموش ہیں –

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص766

محدث فتویٰ

تبصرے