سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(314) نامرد شوہر کی بیوی کا حکم

  • 14414
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4886

سوال

(314) نامرد شوہر کی بیوی کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ کہ مسمی شوکت علی ولد تاج دین قوم لوہار سکنہ جانی والا تحصیل ننکانہ ضلع شیخو پورہ کا ہوں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو ذیل عرض کرتا ہوں۔

میری بیٹی مسمات شگفتہ بی بی کانکاح مسمی اقبال عر ف لال ولد منظور قوم لوہار چک نمبر 630 جالب کا تحصیل جڑا نوالہ فیصل آباد سے عرصہ تقریبا 2سال قبل کر دیا تھا۔جب کہ مسمات اپنے خاوند کے ہاں 8 ماہ وقفہ وقفہ سے آبادرہی ۔دوران آبادگی معلوم ہوا کہ خاوند اقبال عرف لال نامرد ہے حق زوجیت ادا نہیں کرسکتا ہے ۔خاوند نے علاج وغیرہ  بہت کر وایا مگر کا میاب نہ ہو سکا۔ مسمات شگفتہ نے اپنے والدین کو بتایا کہ خاوند نامرد ہے جبکہ مسمات شگفتہ بی بی  کے باپ نے بھی علاج وغیرہ بہت کروایا مگر لڑکا تندرست نہ ہوا ۔اب مسماۃ مذکورہ کاو ایک سال 4ماہ کاعر صہ ہو چکا ہے کہ والدین کے ہاں رہ کر گزر اوقات کر رہی ہےمگر خاوند آج تک تندرست نہ ہوا ہےانہوں نے پہلے بھی علاج کروایا ہے مگر وہ علاج کروانے کے باوجود بھی ٹھیک نہیں ہواہے مگر مسماۃ کے باپ نے لڑکے  کے تایا جان اور چچا جان کو بھی کہا کہ لڑکا نامرد ہے وہ ٹھیک نہیں ۔ہے اب مفتی صاحب سے سوال  ہے کہ شرعا میرےلئے کیا حکم ؟کیامیری بیٹی شرعا نکاح جدید کی حقدار ہے یا نہیں ؟ مجھے شرعا مدلل جواب دیں کذب بیانی ہوگی تو مسائل خود ذمہ دار ہوگا۔(سائلان :شوکت علی ،شگفتہ دختر شوکت علی سکنہ جانی والا ۔ننکانہ ضلع شیخوپورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال ، یعنی اگر شوہر مسمی اقبال عرف لال ولد منظور قوم لوہار نامرد ہے او رسال بھر علاج معالجہ کےباوجود اسکی قوت مجامعت بحال نہیں ہوئی تواسے چاہیے کہ وہ بیوی مسمات شگفتہ بی بی  دختر شوکت علی لوہار کو طلاق دے کر اپنے حبالہ عقد سے آزاد کردے ۔بصورت دیگر مسماۃ مذکورہ کو فیملی کورٹ کے جج عدالت میں مرافعہ کر کے نکاح فسخ کرالے اور حاکم کو نکاح (میاں بیوی میں تفریق )کی ڈگری جاری کرنے کاشرعا حق حاصل ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا...٢٣١﴾...البقرۃ

’’انہیں (بیویوں کو ) تکلیف پہنچانے کی غرض سے وزیادتی کےلئے نہ روکو اور  جو شخص ایسا کرے اس  نے اپنی جان پر ظلم کیا۔،،

جمہور علمائے اسلام نے  کہا ہے کہ جب شوہر اپنی منکوحہ بیوی کوواجبی نان ونفقہ دینے سے قاصر ہو تو بیوی کو اس آیت کریمہ کے مطابق فسخ نکاح کا شرعا حق ہے اور نان ونفقہ دنیوی حق ہے اورزنا سے بچنا ضروری ہے۔کہ وہ اللہ کا حق ہے اس  لئے بیوی کو اجازت فسخ نکاح حاصل ہے :قد ذھب جمھور العماء اھل العلم من الصحابة فمن بعدھم إلی أنه یفسخ النکاح بالعیوب وقد روی عن علی وعمر وابن عباس انھا لا ترد النساء إلا بأربعة عیوب الجنون والجذام والبرص والداء فی الفرج والرجل یشارک المرأة فی الجنون والجذام والبرص تفسخه المرأة بالجب والعنة. (1)نیل الاوطار ج6ص ا57 وفتاوی نذیریہ ج3 ص 549

جمہور اہل علم صحابہ کرام اور بعد کے تابعین کا مذہب ہے کہ عیوب کی وجہ سے فسخ نکاح جائز ہے ۔حضرت علی ،حضرت عمر اور حضرت ابن عباس ﷢ سے روایت ہے کہ چار عیوب سے عورت کو چھوڑا جاسکتاہے ۔ا۔ دیوانگی ۔2۔کو ڑھ۔3۔پھلبیری اور فرج کی بیمار ی اور مرد پہلی تینوں میں شریک ہے اور اگر مرد نامرد ہویا اس کا ذکر کٹا ہوا ہو تو عورت بھی فسخ نکاح کر سکتی ہے ۔

مو لانا عبد الحی حنفی ارقام فرماتے ہیں :

عن عمر أنه قضی فی العنین أن یوجل سنة أخرجه عبد الرزاق والدار قطنی ومحمد بن الحسن فی کتاب الأثار وفی روایة فلما مضی الأجل خیرھا فاختارت نفسھا ففرق بینھما ونحوہ.( 2) اخرجه ابن ابی شیبه عنه وعبدالرزاق عن علی وابن ابی شیبه وعبد الرزاق والدار قطنی عن ابن مسعود ،باب العنین عمدة الرعایة حاشیه نمبر 2 شرح الوقایه ج2ص142.

کہ حضرت عمر ﷜ نے نامرد کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کو ایک سال کی مہلت دی جائے تا کہ تسلی سےوہ علاج کرواسکے ،اس کو عبد الرزاق اور دار قطنی نےروایت کیاہے اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد نےاپنی کتاب الاثار میں روایت کیاہے اور ایک روایت میں ہے کہ جب سال کی مہلت گزر گئی تو حضرت عمر ﷜ نےعورت کو اختیار دیت کہ مرضی ہوتو خاوند کے پاس آباد رہ مرضی ہو نہ رہ ۔تو عورت نے رہنا منظور نہ کیا ۔لہذا حضرت عمر ﷜ نےان کے درمیان جدائی کروا دی ۔اس طرح  حضرت عمر ﷜ سے ابن ابی شیبہ نےروایت کیا ہے اور عبد الرزاق اور دار قطنی نے عبد اللہ بن مسعود ﷜ سےاسی طرح روایت کیاہے ۔اسی طرح امام محمد بن اسماعیل الامیر نے بلوغ لمرام کی شرح سبل السلام میں حضرت عمر فاروق ﷜اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ کا یہی فیصلہ روایت کیا ہے۔کہ ایک سال کی مہلت دی جائے ۔(سبل السلام شرح بلوغ المرام ج3ص 136،138) مگر سال کی مہلت کی اس صورت میں ضرورت ہے جب پہلے اس نےاپنا علاج کروایا ہو اگر کوشش سے اپنا علاج پہلے کرواچکا ہے ،جیسا کہ سوال نامہ میں اس کی تصریح موجود ہے اور صحت نہیں ہوئی تو اب اسے مزید مہلت دینا فضول اور بے سود ہے ،لہذا شگفتہ بی بی  فورا عدالت مجاز سے اپنا نکاح فسخ کروالے یا بذریعہ پنچائت تفریق کرالے اور بعد از عدالت اپنے شرعی ولی کی اجازت سےاپنا نکاح کسی اور مرد سے کرلے ۔ مجاز اتھارٹی کی اجازت اور تو ثیق بہر حال ضروری ہے مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا یہ فتویٰ بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص763

محدث فتویٰ

تبصرے