السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہندہ کی زید کےساتھ شادی ہوئی کو سات سال کاعرصہ ہو چکا ہے۔زید تقریبا چھ سال سےلا پتہ ہےاور کوئی خرچ وغیر ہ بھی نہیں بھیجا اور نہ ہی کوئی اس کا پتہ معلوم ہوا ہے کیا ہندہ اب سات سال کے بعد کسی اور جگہ شادی کر سکتی ہے؟ اگر کر ے تو نکاح سے پہلے کتنی عدت گزارنی پڑےگی؟ایک سائلہ )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اگر شوہر واقعی عر صہ سات سال سے لا پتہ ہے اوراس کی زندگی اور موت کےبارے میں اس کےورثاء اور اقرابا ء کو بھی کچھ علم نہیں تو پھر عورت بعد یا س وناامیدی کے اپنا دوسرا نکاح کےلینے کی شرعا مجاز ومختار ہے ۔حضرت عمر ، حضرت عثمان ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت ابن عباس ،حضرت عبداللہ بن مسعود اور تابعین عظام کی ایک جماعت کا یہی قول اور فتوی ٰ ہے ۔موطا امام مالک میں ہے : عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل. (1)موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207،208ونیل الاوطار.
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
اگر چہ یہ حدیث بظاہر موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے کیونکہ تحدیدات اور تقدیرات میں جہاں قیاس اور اجتہاد کی گنجائش نہ ہو توایسی موقوف حدیث مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتی ہے ۔
فتح الباری ج9ص355 میں ہےکہ امام زہری کامذہب یہ ہے کہ وہ چار برس انتظار کرے۔امام عبدالرزاق اور امام سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان نےیہی فیصلہ کیاتھا ۔محدث سعید بن منصور کی سنن میں روایت سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی ایسا مروی ہے ۔تابعین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے ۔مثلا امام ابراہیم نخعی ،امام عطاء ،امام زہری ،امام مکحول اور امام عامر شعبی وغیرہ اور یہ چار سال کی مدت اس روز سےشمار ہوگی جس دن سے اس نے مقدمہ پیش کیا اور حاکم نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ۔اور سبل السلام ج3 ص208 میں ہے کہ ابو الزناد کہتے ہیں کہ میں نے امام سعید بن مسیب سے اس شوہر کے بارے میں پوچھا جواپنی بیوی کا نان ،نفقہ نہیں دے سکتا ۔تو فرمایا ان میں تفریق کرادی جائے ۔کہا یہ سنت ہے ؟کہا ہاں سنت ہے ۔امام شافعی کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا ارشاد ہے کہ یہ سنت ہے ،اس سے سنت رسول مراد ہے۔اس سےثابت ہواکہ جو شوہر اپنی بیوی کے اخراجات کا متحمل نہ ہو تو اس جوڑے میں تفریق کرادینا سنت ہے ۔جب محض اخراجات مہیا نہ کرسکنے پر تفریق سنت ہے تو پھر مفقود کی بیوی تو تفریق کی اس سے بھی زیادہ مستحقہ ہے کیونکہ اسکی تکلیف تو غریب شوہر کی بیوی کی تکلیف سے کہیں زیادہ ہے۔بہرحال صحابہ کرام کےان فیصلوں اور تابعین عظام کےےفتاویٰ اور ائمہ کرام کی آراء قضایا کے مطابق عورت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی بلاشبہ حقدار ہے اور اس کا یہ حق اس سے چھننا یا کسی قانون کی بنیاد پر اس کو مزید آزمائش میں ڈالنا جائز جائز نہیں ،کہ پہلے ہی سات بر س خون کے گھونٹ پی کر اپنی کے دن پورے کر رہی ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب