سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(310) بیوی اپنے گم شدہ شوہر کا کب تک انتظار کرے

  • 14410
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 2066

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کاخاوند گم ہو جائے تو وہ کتنی دیر تک اس کا انتظار کرنےکے بعد دوبارہ نکاح کر سکتی ہے ؟قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں ۔(سائل :عبدالجبار چک نمبر 493گ ب تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں واضح ہوکہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کےزندہ ہونے یا فوت ہو جانے کا پتہ نہ چل سکے ،نہ اس کے ودھیال کے کسی مردوعورت کو اس کی زندگی یا مو کا علم ہو اور اس کے سسرال ،دوستوں اور جاننےوالوں میں سے کسی کو اس کےمتعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق ﷜ کے مشہور قول کےمطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کانتظار کرے ۔چار برس اس کی ہوگی۔ ازاں بعد وہ عورت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا قرار دیا جائے گا اور پھر چارماہ دس دن بیوگی کی عدت متصور ہو گی ۔ ازاں بعد وہ عورت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آزاد ہوگی ،جیسا کہ سبل السلام میں ہے: َعَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي امْرَأَةِ الْمَفْقُودِ - تَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِينَ ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. (1)سبل السلام شرح بلوغ المرام ج2 ص 207،208

حضرت عمر ﷜ نے فرمایا : جس عورت کا شوہر گم ہوجائے وہ چار برس تک اس کا انتظار کرے ۔ جب چار برس پورے ہوجائیں (تو گویا وہ فوت ہو چکا اور اس کی بیوی بیوہ قرار پائی)لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے اس بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کر سکتی ہے ۔

عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ قال أیما إمراۃ فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فانھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل ۔(2)موطا امام مالک باب عدة التی تفقد زوجھا ص523

حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو کہ کہاں ہے تو جس روز سی اس کی خبر بند ہوئی چار برس تک عورت انتظار کرے بعد چار برس کے چار مہینے دس دن عدت گذار کر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے ۔،،

صحیح بخاری میں جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتوی یہ ہے کہ عورت گم شدگی کےایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ اسی مدت کے قائل ہیں۔

قال ابن المسیب إذا فقد فی الصف عند القتال تربص إمراته سنة۔، (3)باب حکم المفقود فی اھله وماله الجامع الصحیح ج2ص797.

کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان وفا میں گم ہو جائے تواس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتظار کرے۔

واشتری ابن مسعود جاریة والتمس صاحبھا ستة فلم وفقد فاخذ یعطی الدرھم والدرھمین وقال اللھم عن فلان اتی ٰ فلی وعلی الجامع الصحیح ج2ص 797.  کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜ نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی ،پھر لونڈی کا مالک گم ہو گیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ نے اس کا ایک برس انتظار کیا۔

امام بخاری ﷫ کے رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور ظروف واحوال موجودہ کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے کہ اب چونکہ ذرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہو چکاہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک بر س کا انتظار بظاہر کافی معلوم ہوتاہے ۔حضرت عمر فاروق ﷜ کا فتوی ٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتاہے جس میں آج کی طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات یعنی اخبار ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتیں ہرگز میسر نہ تھیں ۔لہذا اب اس دور میں ایک سال کاانتظار کافی معلوم ہوتا ہے ۔ورنہ پرانا فتویٰ تو اپنی جگہ موجود ہے ہی جو جمہور علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے نزدیک بہر حال دائر اور رائج چلا آرہا ہے 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص755

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ