سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(277) عورت ولی نکاح نہیں بن سکتی

  • 14408
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2233

سوال

(277) عورت ولی نکاح نہیں بن سکتی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں :

یہ کہ مسمی غلام قادر ولد میاں قمر چک 14دن ہے تحصیل وضلع اوکاڑہ کا رہائشی ہوں ۔ یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے ۔ جوذیل میں عرض کرتا ہوں۔

کہ میری حقیقی دختر مسمات نذیراں بی بی کاباپ کی اجازت کے بغیر نکاح ہوا ، جبکہ نذایراں بی بی اپنی پھوپھی سے ملنے گئی تو اس نے ورغلا کر اپنے لڑکے امیر ولد نور توم مسلم شیخ چک نمبر 35ٹوآرتحصیل وضلع اوکاڑہ سے کردیاتھا ۔جس کو 7 ماہ کا عرضہ گز رچکا ہے جب کہ مسمات نذیراں بی بی اس نکاح پرراضی نہ تھی او ر نہ ہی مسمات اپنے خاوند مذکور کو پسند کرتی ہے اور جب کہ نذیراں بی بی نےنہایت ہی تنگدستی کے دن گزارے  جبکہ مسمات نذیراں بی بی اپنے والدین کے ہاں آگئی جس کو عرصہ تقریبا 4 ماہ کاہوچکا ہے اب مذکور یئہ اپنے  والدین کے ہاں زندگی کےدن گزار رہی ہے ۔ان حالات میں علمائے دین سے سوال ہے کہ اب نکاح جدید کی حق دار ہوں یا کہ نہیں ؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر ۔عند اللہ ماجور ہون کذب بیانی کا سائل خود ذمہ دار ہوگا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ عورت نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔جبکہ صحت کے لئے ولی مرشد کی اجازت از بس ضروری ہے۔صحیح بخاری میں باب ہے :

بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا}  وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} .ج 2ص769)

کہ اس بات کا بیان کہ جو شخص نکاح کی صحت کےولی کی اجازت کو ضروری سمجھتا ہے وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتا ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدت پوری کرلیں تو ان کو نکاح سے نہ روکو۔ یعنی اگر ولی کو کوئی اختیار ہی نہیں تو پھر اللہ تعالی ٰ نے ولیوں کو یہ حکم کیوں دیا ہے ،لہذا ماننا پڑتا ہے کہ ولی کو حق ولایت حاصل ہے ،عورت خواہ شوہر دیدہ ہو یا کنواری ہو ۔اور اسی طرح آیت َلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ اور وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى میں بھی عورتوں کے لیے ولیوں کو حکم خطاب کیا گیا ہے ۔لہذا ان تینوں نصوص سے واضح نکاح کے لئے ولی مرشد کی اجازت نا گزیر ہے ۔ورنہ ان تینوں آیات میں ولیوں کو خطاب کا کوئی معنی نہیں اور کلام الہی عبث قرار پاتی ہے حاشا وکلا

حضرت ابو موسیٰ اشعری ﷜ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔یہ حدیث صحیح ہے ۔اور جمہور علماء امت کے نزدیک صحت نکاح کے لئے ولی کا اجازت ضروری ہے ورنہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔

3۔ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا۔)اخرجه الاربعة الا النسائی وصححه ابو عونه ابن حبان والحاکم قال ابن کثیر ہ وصححه یحی بن معین وغیرہ متی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلےتو اس کا نکاح باطل رہے اور دخول پروہ عورت اپنے اس شوہر سے مہر حاصل کرے گی۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، رواہ ابن ماجة والدار قطنی ورجاله ثقات ۔سیل السلام ج3ص120

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ کوئی عورت کسی عورت کانکاح نہ کرے اور نہ ازخود اپنا نکاح کرے ۔یعنی عورت ولی نکاح نہیں بن سکتی ۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر الایمانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

فیه دلیل علی ان لمراۃ لیس لھا ولایۃ فی الانکاح لنفسھا ولا لغیر ھا فلا عبارۃ لھا فی النکاح ایجابا ولا قبولا ولا تزوج نفسھا باذن الولی ولاغیرہ ولا غیرھا بولایة (سبل السلام ج3ص120.)

کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کو حق ولایت حاصل نہیں ۔لہذا نہ وہ اپنا ولی بن سکتی ہے اور نہ کسی اور عورت کا ولی نکاح بن سکتی ہے ۔یعنی نہ اپنا از خود نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا ولی بن کر نکاح کر اسکتی ہے ۔لہذا ای کی ولایت میں کیا گیا نکاح ناقابل اعتبار ہے۔لہذا بشرط صحت سوال مسمات نذیراں بی بی دختر غلام قادر ساکن 14 آڑ کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔کہ باپ ولی اقرب کی اجازت نہیں تھی ۔اور نہ باپ کا اس کو علم ہی تھا ،پھر نذیراں کی پھوپھی کا یہ اقدام سراسر خلاف شریعت ہے ،مفتی کی قانونی سقم کی ذمہ دار ہوگا۔عدالت محاز سے توثیق ضروری  -

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص703

محدث فتویٰ

تبصرے