سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) شرعی جواز کے بغیر کسی حج کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں

  • 14407
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1341

سوال

(307) شرعی جواز کے بغیر کسی حج کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد اسلم ولد ولایت خاں کا نکاح شریعت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسمات نسر ین بی بی دختر فجر وخاں کے ساتھ مورخہ 89۔8۔15ہوا تھا،مسمات نسرین بی بی نے میرے اوپر جھوٹا الزام لگا کر سول جج چونیاں قصور میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کردیا ۔جس کے مجھے قطعی علم نہ تھا اوراس نے میرے والد کان بجائے ولایت خان کے شمل خاں لکھوا کر عدالت میں یک طرفہ فیصلہ مورخہ 92۔10۔28کو کرالیا جس کا قطعی طور پر مجھے علم نہ تھا اور نہ ہی میں عدالت میں حاضر ہوا۔

بعد ازیں مسمات نسرین بی بی نے مورخہ 97۔2۔25کو مسمی محمد اسحاق ولد بڈھے خاں سےنکاح ثانی کر لیا اور اب وہ اس کے گھر آباد ہے ،کیا شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ نکاح جائز ہے یانہیں؟اور اگر یہ نکاح درست نہیں تو مسمات نسرین بی بی ومحمد اسحاق پر شریعت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کےمطابق کون سا جرم عائد ہوتاہے اس کی سزا کیاہے ؟ مفصل قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ فرمائے ۔۔

نوٹ :مطلقہ کتنے دن کے بعد نکاح ثانی کرسکتی ہے؟

(سائل :محمد اسلم ولد ولایت خاں موضع کا ہنہ نو تحصیل کینٹ ضلع قصور )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہوکہ  طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو ہی شرعا حاصل ہے کوئی دوسرا شخص طلاق دینے کا حق نہیں رکھتا ۔

جیساکہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ ...﴿٤٩﴾ ...الأحزاب

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ... ﴿٢٣٢﴾ ...البقرة

ان دونوں آیات مقدسہ میں نکاح وطلاق کی اسناد شوہر ہی کیطرف کی گئی ہے :لہذا ثابت ہوا کہ طلاق کااختیار صرف شوہر ہی کو حاصل ہے ۔حدیث میں ہے :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»(ابن ماجة

’’ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے آقا نے میرا نکاح اپنی لونڈی کے ساتھ کردیاتھا اب وہ ہمارے درمیان تفریق ۔۔۔۔۔۔۔۔تو یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف  لائے اور فرمایا لوگو! فلاں آدمی کیاعجیب شخص ہے کہ اپنی لونڈی کا اپنے غلام کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد اب اس جوڑے میں تفریق یعنی طلاق کا اردہ کر بیٹھا ہے یاد رکھو وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتا ۔کیونکہ طلاق دینے اختیار صرف شوہر کے ہاتھ میں ہے ان آیات کریمہ اور حدیث مذکورہ کی بنیاد پر جمہور فقہائے سلف کسی اور کا نہیں ۔۔۔۔

علامہ محقق اور مصری سکالر السید محمد سابق یہ تصریح فرماتے ہیں

ذھب جمہور الفقہاء من السلف والخلف الی ان الطلاق یقع بدون اشہاد لان الطلاق من حقوق الرجل،

اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ عام حالات میں طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے کسی دوسرے کو کوئی حق حاصل نہیں

عورت کے حقوق کا تحفظ

شوہر کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کےحقوق کی پاسبانی کے پیش نظر شرعا قاضی کو حسب ذیل پانچ صورتوں میں بیوی کے مرافعہ پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کا اختیار ہے

التطلیق لعدم النفقة فامسال بمعروف او تصریح باحسان کے پیش نظر امام مالک امام مالک شافعی اور امام احمد اس طرف گئے ہیں کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کے نان ونفقہ کی ادئیگی میں عمدا کو تاہی کررہا یا بوجہ اعسار وافلاس کے نان ونفقہ  ادا کرنے سے قاصر ہو اور اس کی بیوی اس صورت حال میں اس کے ساتھ تبادلہ کےلیے تیار نہ ہو۔

التطلیق لعیب الروح جب خاوند کوڑھ پھل بہری کا مریض ہونامردیا مجنون یا عنین ہو۔

3۔التطلیق للضرر:امام مالک فرماتے ہیں جب کہ جب شوہر اپنی بیوی پر ظلم وتعدی کا مرتکب ہوں اور اس کی ایذا رسانی پر مستعد ہوں‘یعنی ایسی تکلیف پہنچارہا  ہو جو عورت کی برداشت یے باہر ہویا اس کو غیر اخلاقی قولوفعل یعنی گانا بجانا اور گناہ کے دہندہ پر مجبور کرہا ہوںاور بیوی اپنے دعوی اثبات میں ایسی شہادت پیش کردے جس سے عدالت کو اعتماد ہوجائےیا شوہر اقبال جرم کرلے اور بیوی ان حالات میں رشتہ ازواج بحال رکھنے پر تیار نہ ہوں۔

التطلیق لغیبه الزوج-امام مالک اور امام احمد کے مذہب کے مطابق

(1)شوہراگر گھر سے غیب رہتا ہے۔

(2)خاوند کی اس غیبوبت سے عورت کو تکلیف پہنچتی ہے۔

(3)شوہر بیوی کے شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں رہتا ہو۔

(4) بیوی کے شہر میں رہتا ہے اور بیوی کے پاس آنا جانا  بند کر رکھا ہے۔

(5)اس قطعی تعلق پر ایک برس گزر چکا ہے اور بیوی اپنے شوہر کے اس رویہ کی تاب نہیں رکھتی۔

التطليق لحبس الزوج۔اگر خاوند کسی جرم کے ارتکاب میں تین سال قید ہوگیا ہو اور یہ فیصلہ عدالت مجاز کا آخری فیصلہ ہے اور خاوند کو قید ہوئے ایک برس ہوگیا  ہےاور اس  کی بیوی اس کی اس تنہائی کو پسند نہیں کرتی۔تووہ اما م مالک اور اما احمد بن حنبل کے نزدیک بیوی تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کرنے کی غرض سے عدالت مجاز سے مرافعہ کرسکتی ہےتوقاضی (جج)پوری ایانت داری اورغیر جانبداری کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور مدعیہ کے شوہر کو حسب ضابطہ سچ مچ با خبر کرکے  عدالت میں حاضر ہوکر اپنا موقف پیش کرنے کی اطلاع دینے کے بعد اور بلاکسی ترغیب وتحریص کے رشوت اور انتقامی جذبہ تھوکتےہوئے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرسکتا ہے۔ ان مذکورہ بالاپانچ صورتوں کے علاوہ کسی بڑے سے  بڑےجج کو شریعت کا پیش کردہ الہی قانون انصاف اس بات کی قطعا اجازت نہیں دیتا کہ وہ بیویوں کے  جھوٹے سچے اور پکے کچے گواہوں شہادت پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرتا رہےیا رشوت   لے کر خاوند کواطلاع دے بغیر تنسیخ نکاح کی ڈگریاں جاری کرتا رہے یا رشوت لے کر خاوند کو اطلاع دیئے بغیر تنسیخ نکاح ڈگریا ں فروخت کرتا پھرے۔ایسے  غلط فیصلے کرنے والا جج اگر مسلمان ہے تو وہ یقینا اللہ کی قائم کردہ حدوں کو پھلانگنے والا ہےاور حدود الہی کو سے تجاوز کرنے والا ہےاپنے نفس پر ظلم کرنے والاہے۔

پس اگرصورت مسئولہ میں فاضل جج نے اسلامی قانون عدل انصاف ‘قانون شہادت اور نصاب کی پوری پوری پابندی کرتے  ہوئے سائل محمد اسلم ولدولایت خان کو بار بارسمن جاری کر کے حاضر عدالت ہونے کا حکم دینے کے بعدڈگری جاری کی ہےتو یہ فاضل جج عنداللہ سرخرواور ماجور ہے ورنہ بصورت دیگرعنداللہ علی رؤس الخلائق جواب دہی کے لئے تیار رہے۔کہ اس عارضی عدالت کے ججوں کو بے لاگ دائمی عدالت پیش ہونا ہے۔جس علیم وخبیر جج  نہ دبایا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے نہ اسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور نہ مکرو فریب اور حیلہ بہانہ سے شبہ ڈالا جاسکتا ہے۔

بشرط صحت سوال اگر واقعی یہ یک طرفہ ڈگری عدل انصاف کا جملہ تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جاری کی گئی ہے تو یہ غیرمنصافانہ ڈگری عنداللہ نافذ نہیں ہوئی۔جیساکہ صیحح بخاری میں ام المومنین ام سلمہ﷜ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها:باب من قضی له بحق اخیہ فلایاخذہ فان قضاءالحاکم لایحل حراما ولا یحرم حلاله(بخاری ج2ص1064:1065)

 کہ میں بھی بہرحال انسان ہوں میرے پاس مقدمہ آتا ہےاور فریق چرب لسان اور تیز وطرارہوتا ہے فر فر باتیں کرتا چلا جاتا ہے میں اس کی چرب لسانی کی وجہ سے اس کوسچا سمجھ کراس کے حق فیصلہ میں کردوں تو یار درکھو ، میرا وہ فیصلہ جہنم کا ایک قطعہ ہے ۔(کیونکہ قاضی کاغلط فیصلہ عند اللہ نافذ نہیں ہوتا  ،یعنی اس کے غلط فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوتی اور حلال چیز حراز نہیں ہوتی )لہذاچاہے تو وہ اسے جہنم کو قبول کرے چاہے تو چھوڑ دے ۔پس اگر واقعی یہ یک طرفہ فیصلہ ہے تو اس فیصلہ کی بنیاد پر پڑھا گیا دوسرا نکاح باطل ہے کیونکہ یہ نکاح پر نکاح ہے جو کہ قرآن مجید کی درج ذیل نص جلی کے ساتھ حرام ہے ۔آیت یہ ہے :

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ ... ﴿٢٤﴾...النساء

’’اور (حرام کی گیئں )شوہروں والی عورتیں مگر وہ تمہاری ملکیت میں آجائیں ۔نے یہ احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں ۔،،

امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں :

ای وحرم علیکم من الاجنبیات المحصنت وھن المزوجات الا ما  ملکت ایمانم .

یعنی شوہروں والی عورتیں بھی ت پر حرام ٹھہرا ہیں مگر تمہاری لونڈیاں حلال ہیں ۔

پس اس نص جلی کے مطابق دوسرانکام حرام ٹھہرا ،یعنی منعقد ہی نہیں ہوا۔اور جب یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تو اس نئے جو ڑے کے ازدواجی تعلقات سفاح محض اور سراسرزنا کار ی ہے اور از روئے قرآن کنوارے مرد اور کنواری عورت کی سزا نصاب شہادت کی تکمیل پر سو سو کوڑے ہے :الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ ...﴿٢﴾...النور اور شادی شدہ اور عورت پر حد رجم ہے جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الحدود میں حضرت جابر بن  عبد اللہ انصاری ﷜ سے روایت ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ: «أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمْ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَهُ أَنَّهُ قَدْ زَنَى، فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ، وَكَانَ قَدْ أُحْصِنَ»(صحيح البخارى باب رحم المحصنج2ص1006)

’’حضرت جابر ﷜ کہتے ہیں کہ بنوسلیم کا ایک آدمی (ماعز بن مالک ﷜)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر  ہوئے  اور کہا کہ حضرت میں زنا کر بیٹھا ہوں اور پھر چار دفعہ اقبال جرم کیا  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو رجم کر دیا جائے ،چنانچہ ان کو رجم کرادیا گیا وہ اس وقت شادی تھے۔

اگر فاضل جج نے سائل محمد اسلم کی طلبی کے نوٹس جاری کئے اور عدالت میں حاضر ہونے کے لئے باضابطہ اس کے سمن جاری کئے مگر مدعیہ نے عدالت کے  اہل کاروں کے ساتھ ملی بھگت اور مک مکاکر کے سائل مذکور کو بے خبر اور فاضل جج کواندھیرے میں رکھا ہے تو اس صورت میں جج صاحب عند اللہ بری اور بے گناہ ہیں ۔ورنہ بصورت دیگر ان کو اپنے اس غلط فیصلے سے تو بہ کرنی چاہیے اور آئندہ کے لیے محتاط رہنا چاہیے ۔یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر میں لایاگیا ہے 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص747

محدث فتویٰ

تبصرے