السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کی دو بیویاں ہیں ان دونوں میں سے ایک کی لڑکی پیدا ہوئی ہے لڑکی نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے اور بکر زید کا رشتہ دار ہے بکر نے زید کی دوسری بیوی کا دودھ پیا ہے ۔کیا زید کی لڑکی بکر کے نکاح میں آسکتی ہے ؟مہربانی کرکے ضرور بتائیں اور مفصل لکھیں بڑی نوازش ہوگی ۔(سائل: حافظ مجیب الرحمٰن متعلم مدرسہ دارالحدیث محمدیہ عبداللہ والا معرفت ڈاکٹر حشم رضا نیا بازار لودھراں ملتان)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت سوال کے مطابق بکر زید کا رضاعی بیٹا بن چکا ہے کیونکہ بکر نے زید کی دوسری بیوی کا دودھ پیا ہے اور دودھ کی ساخت میں میاں بیوی کا برابر کا حصہ ہے ،لہٰذا بکر زید کی دوسری بیوی کی بیٹی آپس میں رضاعی بہن بھائی ہیں اور جس طرح حقیقی بہن بھائی کی آپس میں نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بہن بھائیوں کا بھی آپس میں نکاح حرام ہے ۔
چنانچہ ترمذی شریف میں ہے :
(عن على رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : { إن الله حرم من الرضاع ما حرم من النسب }) (۱: تحفة الاحوذی : ج۲ص ۱۹۷)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے دودھ کے وہ رشتے بھی حرام کر دیے ہیں جو ولایت کے رشتے حرام کئے ہیں :
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة }هذا حديث حسن صحيح(: تحفة الاحوذی : ج۲ ص ۱۹۸)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے رضاعت کے بھی وہ رشتے حرام کر دئے ہیں جو ولادت کے رشتے حرام کئے ہیں ، صحابہ کرام اور تابعین میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔
((عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ عَمُّكِ، فَأْذَنِي لَهُ» قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي المَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ عَمُّكِ، فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ»هذا حديث حسن صحيح) (۳: تحفة لا حوذی : ج۲ص ۱۹۸))
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا افلح نے میرے گھر آنے کی اجازت مانگی ، میں نے کہا جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے مشورہ نہ کرلوں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتی تو آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ آسکتا ہے ۔میں نے عرض کیا کہ دودھ تو مجھے عورت نے پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ تیرا رضاعی چچا ہے اسے آنا چاہیے ۔
(سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ " رَجُلٍ لَهُ امْرَأَةٌ وَسُرِّيَّةٌ وَلَدَتْ إحْدَاهُمَا غُلَامًا وَأَرْضَعَتْ إحْدَاهُمَا جَارِيَةً ، هَلْ يَصْلُحُ لِلْغُلَامِ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْجَارِيَةَ ؟ قَالَ : لَا ؛ اللِّقَاحُ وَاحِدٌ " .) (۴: تحفة الا حوذی : ج۲ ص ۹۸)
”حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی کی دو لونڈیاں ہیں ، ایک نے ایک بچی کو دودھ پلایا ہے اور دوسری نے دوسرے بچے کو دودھ پلایا ہے ۔
کیا اس بچی اور بچے کا آپس نکاح ہوسکتاہے تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ نہیں کیونکہ سانڈ ایک ہے بہر حال ان احادیث کے مطابق بکر اور زید کی دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی لڑکی کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ دونوں آپس میں رضاعی بھائی بہن ہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب