السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرح اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بارہا یہ کہا کہ تم میری بیٹی ہو اور بھانجی اور بہن ہو اور تم مجھ پر حرام ہو اور ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ گناہ کیا کیونکہ میں نے تمہیں نکاح میں قبول ہی نہیں کیا اس کے بعد زید کی بیوی او ر اس کے درمیان مکمل طور پر علیحدگی ہو گئی ، اس کے بعد بیوی نے فسخ نکاح کا کیس عدالت عالیہ میں دائر کیا ،جہاں بیوی کا بیان قلمبند ہوا اور اس نے عدالت کے رو برو اپنے شوہر کو یہ کہا کہ تم میرے باپ اور بھائی ہو اور میں تم پر حرام ،حرام ،حرام ہو چکی ہوں اور میں تیرے منہ پر تھوکتی ہوں ۔اس عورت کا نکاح باقی رہا کہ نہیں قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح حل صادر فرمائیں ؟(سائل :عتیق الرحمٰن ولد ریاض الرحمان ۳۰ ایف راجہ سنٹر مین مارکیٹ گلبرگ لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شرعاً نکاح ہی نہیں ہوا ۔کیونکہ صحت نکاح کے لئے ایجاب و قبول ہونا از بس ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں شرعاً نکاح کے اساسی رکن ہیں یعنی نکاح نام ہی ایجاب و قبول کا ہے اگر ایجاب و قبول نہیں تو نکاح ہی کیا ہوا ؟ فتاویٰ اہل حدیث ج۲ص۴۶۱اور فقہ السنہ میں ہے(يقول الفقهاء أن أركان الزواج الإيجاب والقبول) (ج۲ ص۲۹)
جب سوالنامہ خط کشید صراحت کے مطابق اس نام نہاد شوہر نے یا اس کے وکیل نے اس عورت کو بطور بیوی قبول ہی نہیں کیا تو نکاح کیسے ہوا لہٰذا اس نام نہاد شوہر کا اس عورت کو بیٹی ،بھانجی اور بہن کہنا سب بے ہودہ بکواس کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس طرح اس نام نہاد بیوی کا اس آدمی باپ ،بھائی وغیرہ کہنا اور عدالت میں بیان بازی کرنا سب فضول اور بکواس اور بےکار کاروائی ہے جس کا کوئی نتیجہ شرعاً مرتب نہیں ہوتا اور اس عر صہ میں ان دونوں کا بطور میاں بیوی آباد رہنا محض سفاح اور زنا کی کاروائی کے سوا کچھ نہیں ،یہ جواب محض ایک شرعی سوال کا جواب ہے مجاز اتھارٹی سے اس کی توثیق ضروری ہے مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی کاروائی کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب