سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(283) ولی کا خیر خواہ ہونا ضروری ہے

  • 14383
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1546

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرح کہ میں مسماۃ صبیحہ (بیوہ) عمر ۴۰سال دو بچے موجود (ایک لڑکا ایک لڑکی ) والد ، بھائی پانچ ، بہنیں تین موجود ہیں ۔بیوہ ہوئے دو برس دس ماہ ہوچکے ہیں ۔میں نکاح کرنے کی خواہش مند ہوں اس وقت عزیزوں میں موزوں رشتے موجود ہیں ۔باپ اور بڑا بھائی بلا  وجہ کے مخالفت کرتے ہیں۔تین بھائی اور تین بہنیں آمادہ ہیں ۔معاشرہ بڑا خراب ہے ، اس لئے چاہتی ہوں کہ اپنا جائز ٹھکانا بنالوں۔بطور ولی میرا نکاح میرے تینوں بڑےبھائی پڑھا سکتے ہیں ۔اگر میرا باپ اور بڑا بھائی شامل نہ ہوں ۔شریعت محمدی کے تحت فتویٰ صادر فرما کر  ممنون فرمادیں

(صبیحہ (بیوہ)خادر وقار)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ صحت نکاح کےلئے ولی اقرب (باپ بشرطیکہ حیات ہو)کی اجازت شرط ہے ۔جیساکہ کتب احادیث میں زبان زد عوام مشہور حدیث ہے ۔:

عن ابی موسیٰ الاشعری عن النبی ﷺ قال لا نکاح إلابولی ۔اخرجه ابو داؤد (ج۲ص۸۵)والترمذی (ج۱ ص۲۰۳،۲۰۴) والد ارمی(ج۲ص۲۳۷)والطحاوی (ج۲ص۵)وابن ابی شیبه(ج۷ص۲۰۳)وابن الجارود(۷۹۲) وابن حبان(۱۲۴۳) والدارقطنی (ج  ۳۸۰)والحاکم(ج۲ص۱۷۰)والبیہقی(ج۷ص۱۰۶) واحمد(ع ۳۹۳،۴۱۳)ارواءالخلیل ج۶ص۲۳۶)ونیل الاوطارباب لانکاح الا بولی ج۶ص۱۳۵)

”رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاًمنعقد نہیں ہوتا“

یہ حدیث لانکاح الابولی قومی ترین دلیل ہے اور اپنے حکم میں عام ہے۔لڑکی خواہ کنواری ہو یابیوہ ہو ۔بڑی ہو یا چھوٹی ،بالغہ ہو یا نابالغہ کسی کا نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں۔

اس مضمون کی احادیث  تیس صحابہ و صحابیات سےمروی ہیں۔

((قال الحاكم وقد صحت  الرواية فيه  عن الأزواج المطهرات عائشة  وأم سلمة  وزينب بنت  جحش  ثم سرد تمام ثلاثين صحابيا)

نیز امام علی بن مدینی ۔امام بخاری ، امام محمد بن یحییٰ وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔نیل الاوطارج۱ص۱۳۵ و ارواہ الغلیل ج۶ص۲۲۸ سبل السلام ج۳ص۱۱۷۔نیز امام حاکم نے بھی اس کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی امام حاکم

سے موافقت کی ہے ۔البانی نےبھی صحیح کہا ہے ۔بہر حال یہ حدیث صحیح ہے  کنواری اور بیوہ کو شامل ہے ۔لہٰذا کوئی کنوار ی عورت اپنے ولی اقرب کی اجازت کے بغیر  نکاح نہیں کرواسکتی ۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت من کل الوجوہ مجبور اور ولی ہر لحاظ سے آزاد اور ہر  طرح کے اختیارات کا اس حد تک مالک ہے کہ وہ اپنا یک طرفہ فیصلہ اپنے زیر ولایت لڑکی پر ٹھونس سکتا ہے ،ایسا ہرگز نہیں ۔بلکہ نکاح کا انعقاد ولی کی زیر ولایت لڑکی کے باہمی افہام و تفہیم اور باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتا ہے ۔کسی ایک فریق کا یکطرفہ اقدام شرعاً ہر گز قبول نہیں ۔پس ولی اگر زیادتی اور ظلم کی ٹھان لے تو شرعاً وہ حق ولایت سے محروم ہوجاتاہے ۔کیونکہ ولی کی ولایت سے مقصود بھلائی اور خیر خواہی ہے ،جب وہی ظلم پر آمادہ ہو تو ولی کاہے کا۔ جائیداد ہتھیانے کے لئے اس کو نکاح ثانی سے روکنا چاہے یا اس طرح کی کسی اور غرض سے عورت کی مستقبل سے بے پرواہ ہوایسا کرے اور عورت کے اس شرعی حق پر قدغن لگادے خصو صاً جب کہ رشتہ بھی موزوں ہے  جیسا کہ سوال نامہ میں تحریر ہے  تو شریعت اس قماش کے آدمی کو ولی قرار نہیں دیتی اس لئے حدیث  ہے :

(وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»(۱:رواہ الدار قطنی ،نیل الاوطار باب الشھادۃ فی النکاح ج۶ ص۱۲۶ و ارواء الخلیل ج۶ ص۲۴۰)

یعنی اگر ولیوں کا باہم جھگڑا ہو جائے ۔پس سلطان (قاضی) اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو ۔گویا  جھگڑے کی صورت میں  ولی حق ولایت سے محروم ہو جاتا ہے یعنی ولی ولی نہیں رہتا کیونکہ ان سے لڑکی کو  نفع  پہنچنے کی امید نہیں ۔اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ جس ولی سے بھلائی اور نفع کی امید نہ ہو وہ ولی ازروئے شرع اپنی ولایت سے محروم ہوجاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

((إذا كان الولى  مضارا فولت رجلا و أنكحها فنكاحه جائز) (۱: رواہ الدارقطنی مع  التعلیق  المغنی و فتاویٰ اھل حدیث ج۲ ص۴۰۷))

ولی جب عورت کو نقصان دینے والا ہو اور وہ کسی دوسرے شخص کو اپنا ولی قرار دے کر نکاح  کر لے تو جائز ہے “ اس حدیث سے معلوم  ہوا کہ نقصان پہنچانے والا ولی نہیں رہ سکتا ،بلکہ وقت کوئی اور ولی ہوگا ۔امام شافعی رحمہ اللہ  کتاب الام میں فرماتے ہیں:

(عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ»)(۲: کتاب الام ج۵ ص ۱۹ ونیل الاوطار ج۶ ص ۱۲۹ باب الشھادۃ فی النکاح و الدارقطنی ج۳ ص۲۲۲ وفی  ارواءالخلیل عن ابن عباس قال لانکاح لا باذن ولی مرشد  او سلطان ج۶ ص۲۳۹ و فتح الباری  ج۹ باب السلطان ولی لا نکاح الا بولی مرشد اوسلطان ج۹ ص ۱۵۷

یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہدایت والے ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح  نہیں ہوتا۔طبرانی اوسط میں ہے(  لا نکاح الا بشاھدی عدل و ولی مرشد۔ (۴:ارواء الخلیل ج۶ص ۲۵۱)

(و من طريق الطبرانى فى الأوسط بإسناد حسن  عن ابن عباس لا نکاح  إلا بإذن  ولى مرشد  أو سلطان ) (۱: ارواءالخلیل ج۶ ص۲۳۹ وفی فتح الباری ج۹ باب السلطان ولی لانکاح الا بولی مرشد او سلطان ص ۱۵۷)

یعنی ہدایت والے ولی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔اس سے معلوم ہوا کہ ولی ہدایت والا ہونا چاہیے اگر ہدایت والا نہ ہو تو وہ ولی ہونے کا اہل نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں باپ کی ولایت کالعدم ہے ،کیونکہ سائلہ شرعاً نکاح ثانی کی مستحق ہے ،پھر عمر بھی نکاح کی متقاضی ہے ۔مزید یہ کہ رشتہ بھی موزوں ہے ۔پھر والدکا اپنی انا یا ہندوانہ رسم یا کسی دوسری سفلی  غرض کے پیش نظر سائلہ کو اس کے شرعی حق سے  محروم رکھنا صریحاً ظلم ہے  اور ظالم ہدایت والا نہیں ہوتا ۔پس حق ولایت شرعاً معزول ہے ۔اب بادشاہ (قاضی)  ولی ہے بشر طیکہ اسلامی حکومت قائم ہو ۔چونکہ اس وقت ہمارے یہاں طاغوت کی حکومت ہے  لہٰذا اب پنچایت کا سر پنچ  شر عاً ولی ہے ۔اگر اس کا اتفاق نہ ہو تو نمبردار ، کونسلر ہے ۔بعض اہل علم اول نمبر بیٹے کو کہتے ہیں ۔اگر یہ ظلم کریں تو بھائی اس کے بعد چچا پھر چچا کا بیٹا ، پھر دادے کی اولاد اوپر جہاں تک اپنی نسب کا علم ہو ۔غرض باپ کی طرف سے حق ولایت ہے ۔ماں کی طرف سے نہیں۔(۲:فتاوی ٰ اھل حدیث ج۲ ص۴۰۷)

السید محمد سابق المصری  تصریح فرماتے ہیں:

(اتفق العلماء على أنه ليس للولي أن يعضل موليته، ويظلمها بمنعها من الزواج، إذا أراد أن يتزوجها كفء بمهر مثلها، فإذا منعها في هذه الحال كان من حقها أن ترفع أمرها إلى القاضي ليزوجها.ولا تنتقل الولاية في هذه الحالة إلى ولي آخر يلي هذا الولي الظالم، بل تنتقل إلى القاضي مباشرة، لان العضل ظلم، وولاية رفع الظلم إلى القاضي.) (۳: فقه السنة ج۲ ص۱۲۱)

اس مسئلہ میں علمائے  اسلام کا اتفاق ہے کہ جب لڑکی اپنے کفو کے ساتھ مہر مثل طے کر کے  نکاح کرنا چاہے اور اس کا ولی مانع ہو  یعنی اس کی اجازت نہ  دے تو ایسا ولی ظالم ہے اور وہ شرعاً  ولی ہی نہیں رہتا ۔اس صورت میں لڑکی اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرے ۔ بشر طیکہ ملک میں اسلامی حکومت نافذ اور قائم ہو ۔اور وہ اس لڑکی کا نکاح کر دے۔

اس کی  واضح دلیل یہ آیت ہے :

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ... ٢٣٢﴾...البقرۃ

 یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ جمیل کو اپنے شوہر ابو البداح سے رجعی طلاق کی عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے سے  روکا تھا -

خلاصہ:بحث صورت مسئولہ میں سائلہ  صبیحہ (بیوہ خاور) اپنے کسی  بڑے بھائی ، چچا یا پھر برادری کے بڑے آدمی کو اپنا ولی مقرر کر کے نکاح کر سکتی ہے ۔ بشر طیکہ وہ اپنے کفو کے ساتھ مہر مثل کے ساتھ نکاح کرے  یہ جواب بشر ط صحت سوال تحریر کیا گیاہے  مفتی کسی قسم کے قانونی سقم اور عدالتی جھمیلوں میں ہر گز مسئول نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص716

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ