سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(281) نقصان دہ ولی کی ولایت نکاح کا حکم

  • 14381
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1989

سوال

(281) نقصان دہ ولی کی ولایت نکاح کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ کے بارے میں کہ  صائمہ بنت فقیر محمد ایک یتیم لڑکی ہے جس کی والدہ گونگی ہے حقیقی بھائی کوئی نہیں  اور حقیقی چچا بھی نہیں ہے اس نے حسیں نامی لڑکے سے بدون اپنے  رشتہ داروں کی مرضی کے اپنے علاقائی بھائیوں کی اجازت سے ولی کا تقرر کیا اور نکاح کرلیا۔ لڑکا لڑکی کچھ عرصے چھپے رہے ۔راز افشا ہونے پر لڑکی کے ننھیالی اور دودھیالی رشتہ داروں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا اورلڑکی کو واپس مانگا ۔ساجد کے والد نے اپنے بیٹے کو مجبور کیا کہ وہ صائمہ کے رشتہ داروں کا مطالبہ پوراکرے کیونکہ بصورت دیگر تنازعہ بڑھنے کا خد شہ تھا ۔نتیجتاً ساجد نے طلاق دی اب لڑکی حاملہ ہے ۔عدت ۹۷-۳-۱۴ کو پوری ہوگی ۔کیا ساجد مراجعت کرسکتاہے ؟ مندرجہ بالا بیان حلفاً درست ہے ،قرآن وسنت کی رو سے فیصلہ فرمائیں ۔

(حسین ساجد ولد عبدالحق عبید مکان نمبر ۳ گلی نمبر ۴ مسجد غوثیہ سگھیاں ستار جے  بلاک گلشن  راوی لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال و بیان حلفی صورت مسئولہ میں تین باتیں تنقیح طلب ہیں ۔

۱: کیا نکاح شرعاً منعقد ہوچکا ہے یا نہیں ؟

۲: کیا صورت مسئولہ میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟

۳: اگر واقع ہوچکی ہے تو کیا موثر ہو گئی ہے یا  ابھی موثر نہیں ہوئی ؟

اب ان تینوں  باتوں پر تبصرہ اور مناقشہ پیش خدمت ہے ۔

۱: اس حقیقت میں قطعاً کوئی ابہام نہیں کہ شر عی ولی کی اجازت کے بغیر شرعاً نکاح منعقد ہوتاہی نہیں جیساکہ کتب احادیث میں زبان زد عام مشہور حدیث ہے :

(عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»))(۱: اخرجه، ابو داؤد ج۲ص۷۵والترمذی  ج1 ص۲۰۳ ، ۲۰۴ و الدارمی ج۲ ص۱۳۷ والبیہقی ص۱۰۷۱۷ ازواء القلیل ج۶ ص۲۳۶ و نیل الاوطار باب لا نکاح الا بولی ج۱ ص ۱۳۵)

”رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ولی کی اجازت کے بغیر شرعاً نکاح صحیح نہیں ہوتا“

(قال الحاكم وقد صحت  الرواية فيه  عن الأزواج المطهرات عائشة  وأم سلمة  وزينب بنت  جحش  ثم سرد تمام ثلاثين صحابيا)(۱: ارواء الخلیل ج۶ ص ۲۳۶)

کہ یہ حدیث صحیح نبی کریم کی بیوی حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہما سمیت تیس اصحاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اس حدیث کو امام علی بن مدینی ،امام بخاری اور حاکم نے بھی صحیح قرار دیا ہے  ۔امام حاکم سے  حافظ ذہبی نے موافقت کی ہے ۔اور امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔

پس یہ حدیث اس بات کی قوی دلیل ہے اور اپنے حکم میں ایسی عام ہے کہ لڑکی خواہ کنوارہ ہو کہ بیوہ ہو بالغہ ہو یا نابالغہ بڑی یا چھوٹی کی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا مگر اس کایہ مطلب اخذ کر نا ہر گز صحیح نہیں کہ عورت عن کل الوجوہ مجبور محض ہے اور اس کا ولی اس حد تک بے پناہ اختیارات کا مالک ہے کہ وہ اپنا یک طرفہ فیصلہ اپنی زیر ولایت لڑکی پر ٹھونس سکتا ہے ۔ شریعت اسے یہ اختیار عام ہر گز نہیں دیتی ۔بلکہ صحیح نکاح کا انعقاد ولی کی زیر ولایت لڑکی کے باہمی افہام و تفہیم اور دونوں کی رضا مندی سے منعقد ہوتا ہے ۔ کسی ایک فریق (ولی یالڑکی ) کا  یک طرفہ اقدام شرعاً ہرگز قبول نہیں  پس ولی اگر زیادتی اور ظلم کی ٹھان لے تو وہ شرعاً حق ولایت سے محروم ہوجاتا ہے ۔کیونکہ ولی کی ولایت سے مقصود لڑکی کی خیر خواہی ہےاور بھلائی ہے جب وہی ظلم پر آمادہ ہوجائے تو ولی کاہے کا رہا ۔مثلاً : ولی اپنی زیر ولایت لڑکی کی جائیداد ہتھیانے کےلئے کسی ایسے شخص  کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہے جو اس کا کفونہ ہو۔یا لڑکی کو اس سے طبعی نفرت ہو یا اس طرح کی کوئی اورغرض ولی کے پیش نظر ہو مگر لڑکی کا روشن  مستقبل اس کے مد نظر نہ ہو تو شریعت اس قسم کے ولی کو حق ولایت سے محروم کردیتی ہے جیساکہ احادیث میں یہ بات بڑے صاف اور واضح الفاظ میں موجود ہے۔

(عَائِشَةَ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ، وَمَا كَانَ مِنْ نِكَاحٍ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ بَاطِلٌ، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ») (۲: سبل السلام ج۲ص ۱۲۱ نیل الاوطار باب الشھادۃ فی النکاح 6 ص ۱۲۶ و ارواءاخلیل    ج۶ص ۲۴۰)

کہ رسول اللہﷺنے  فرمایا کہ نکاح نہیں ہوتا مگر ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی شہادت کے ساتھ ۔اگر ولیوںکا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو سلطاں (قاضی وغیرہ ) اس کا ولی بن جاتاہے جس کا کوئی اور ولی نہ ہوگویا جھگڑے کی صورت میں ولی حق  ولایت سے محروم ہوجاتا ہو ہے یعنی ولی ولی ہی نہیں رہتا کیونکہ جھگڑے اور ضد بازی کی صورت میں لڑکی کا روشن مستقبل ولیوں کی سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس ولی سے بھلائی اور نفع کی امید نہ ہو وہ ولی ازروئے شریعت ولایت کے حق سے معزول ہوجاتاہے۔

(إذا كان الولى  مضارا فولت رجلا و أنكحها فنكاحه جائز) (۱: رواہ الدارقطنی مع  التعلیق  المغنی و فتاویٰ اھل حدیث ج۲ ص۴۰۷)

”ولی جب عورت کو نقصان پہنچانے والاہو اور کسی دوسرے  ذمہ دار آدمی کو اپنا ولی مقرر کر کے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح جائز نکاح ہوگا“

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو نقصان پہنچانے والا شخص اس کا ولی نہیں بن سکتا۔

امام شافعی کتاب الام میں یہ روایت لائےہیں:

(عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ»)(۲: کتاب الام ج۵ ص ۱۹ ونیل الاوطار ج۶ ص ۱۲۹ باب الشھادۃ فی النکاح و الدارقطنی ج۳ ص۲۲۲ وفی  ارواءالخلیل عن ابن عباس قال لانکاح لا باذن ولی مرشد  او سلطان ج۶ ص۲۳۹ و فتح الباری  ج۹ باب السلطان ولی لا نکاح الا بولی مرشد اوسلطان ج۹ ص ۱۵۷

یعنی ہدایت والے  ولی یا سلطان وقت کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ولی ہدایت والا اور لڑکی کی خیر خواہی چاہنے والا ہونا چاہیے ۔اگر وہ ان اوصاف میں کورا ہو تو وہ ولی بننے کا اہل نہیں۔غرض یہ کہ نکاح کی صحت کے لئے  ولی کا ہونا ازبس ضروری ہے ،ورنہ نکاح صحیح نہ ہوگا۔

چونکہ سوالنامہ کی خط  کشیدہ صراحت کے مطابق مسماۃ صائمہ بنت فقیر محمد نے اپنے  علاقائی ( کی طرف سے ) بھائیوں کی اجازت سے کسی دوسرے  شخص کو اپنا ولی  بنا کر نکاح کیا ہے لہٰذا یہ نکاح شرعاً صحیح ہے ۔کیونکہ والد کے بعد بیٹا اور ااگر یہ بھی نہ ہو پھر عورت کا بھائی اس کا شرعی ولی بن سکتا ہے جیسا کہ ہندو  پاکستان کے نامور مفتی اور مشہور عالم دین حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمتہ اللہ علیہ   یہ تصریح فرماتے  ہیں:

” بہر صورت عورت کےلئے ولی کا ہونا ضروری ہے اول نمبر والد ہے ۔ بعض اول نمبر بیٹے کو کہتے ہیں ،اگر یہ ظلم کریں تو بھائی اس کے بعد چچا ،پھر دادےکی اولاد اس طرح اوپر تک جہاں تک اپنے نسب کاعلم ہو ۔ غرض  باپ کی طرف سے حق ولایت ہے ۔ماں کی طرف سے نہیں کیونکہ ماں کی قرابت کمزور ہے اس لئے  ماموں یا نانا وارث نہیں ہوتے  الخ۔)(۳: فتاویٰ اھلحدیث ج۲ ص ۴۰۷ ،۴۰۸)

چونکہ یہ نکاح باپ کی طرف سے  بھائیوں کی اجازت کے ساتھ ہوا ہے   لہٰذا اب دور کے چچا اور ماموں  کو اس نکاح پر اعتراض کرنے کا شرعاً حق حاصل نہیں ۔

جواب:تنقیح نمبر ۲: چونکہ یہ طلاق  حسین ساجد ولد عبدالحق عبید نے اپنے والد کی ہدایت پر اور مشورہ کے بعد  بقائمی ہوش و حواس  اپنے اختیار سے دی ہے لہٰذآ یہ طلاق بلاشبہ واقع ہو چکی ہے  مگر چونکہ یہ تینوں طلاقیں مجلس واحد میں دی گئی ہیں اور صحیح مسلم کتاب الطلاق ج۱ ص ۴۷۷ میں حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث :

(كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً)

کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع ہوئی اور رجعی طلاق میں اندر عدت نکاح بحال اور رجوع شرعاً جائز ہوتاہے ۔ اور یہ طلاق چونکہ حمل کے دوران دی گئی ہے اور ابھی تک مسمات صائمہ بنت فقیر محمد سوال نامہ  کی مخطوطہ  تصریح نمبر ۲ کے مطابق  حاملہ ہے  ، لہٰذا عدت ابھی پوری نہیں ہوئی کیونکہ قرآن مجید کی نص جلی کے مطابق حاملہ  مطلقہ  کی عدت وضع حمل ہے ،جیسا کہ  فرمایا:

﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ ... ٤﴾...الطلاق

 پس نکاح سابق بحال اور قائم ہے لہٰذا ساجد ولد عبدالحق عبید اپنی بیوی صائمہ دختر فقیر محمد سے رجوع کر سکتا ہے۔نہ حلالہ کی ضرورت ہے اور  نکاح ثانی کی حلالہ تو ویسے بھی  بے غیرتی کا مظہراتم اور ملعون فعل ہے یہ جواب بشرط صحت سوال ایک شرعی مسئلہ کا اظہار ہے اور بس ۔مفتی کسی عدالتی  کاروائی اور قانونی جھمیلوں میں ہر گز مسئول نہ ہوگا 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص712

محدث فتویٰ

تبصرے