السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں یہ کہ مسمات جو کھو بی بی دختر احمد قوم مستری ساکن بہاد مان تحصیل پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد کی ہوں یہ کہ ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو درج ذیل میں عرض ہے ۔
یہ کہ میری بیٹی مسمات جنت بی بی کا نکاح زبردستی بغیر میری مرضی اور رضا مندی کے ہمراہ مسمی مراد ولد پیر قوم ندیرہ ساکن نو تھہ حافظ آباد سے عرصہ ۲ ماہ ۲۰ یوم قبل کر لیا گیا تھا ۔ جبکہ مسمات کو اغوا کر کے یہ نکاح کیا گیا ہے اور میری بیٹی کے انگوٹھے زبر دستی فارم پر لگوائے ہیں ۔مسمات مذکورہ کی والدہ اور باپ کو اس نکاح کے بارے میں علم نہ تھا ۔مسمات کو دھوکہ دے کر لے گئے اور انہوں نے ۸ یوم اپنی حراست میں رکھا ۔ مسمات مذکورہ کے والدین کو اس نکاح کے بارے میں علم ہوا تو مسمات مذکورہ کو برادری والے تلاش کر کے لائے ۔اور مسمات اس وقت سے آج تک اپنے والدین کے ہاں رہ رہی ہے مسمات مذکورہ سے یہ نکاح قتل کی دھمکی دے کر کیا گیا ،مسمات اس نکاح کو قبول نہیں کرتی اور کسی صورت میں آباد ہونے کے لئے تیار نہیں ہے اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا شرعاً مسمات کا نکاح زبردستی بغیر والدین مرضی پڑھا گیا نکاح شریعت محمدی کے مطابق جائز ہے کہ نہیں ؟ ہمیں مدلل جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں ۔کذب بیانی ہوگی تو سائلہ خود جرم وار ہوگی لہٰذا مجھے شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔(مسمات سائلہ جوکھو بی بی والدہ مسمات مذکورہ جنت بی بی سوال سن کر اس کو تسلیم کرتی ہوں )
ہم سوال کی حرف بہ حرف حلفاً خدا تعالیٰ کو حاضر جان کر تصدیق کر تے ہیں کہ سوال بالکل صداقت پر مبنی ہے اگر کسی وقت غلط ثابت ہوگا تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے ،لہٰذا ہمیں شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال و بشرط صدق تصدیق کنندگان صورت مسئولہ میں واضح ہوکہ یہ نکاح شرعاً باطل ہے کیونکہ منعقد ہی نہیں ہوا کہ انعقاد نکاح اور اس کی صحت کے لئے ولی مرشد ،یعنی عاقل بالغ آزاد مسلمان ولی کی اجازت شرط ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ... ٣٢﴾...النور
”کہ اے ولیو ! اپنے میں سے بیوگان کی اور اپنے نیک چلن غلاموں اور لونڈیوں کی شادیاں کر دیا کرو “
﴿وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ ....﴿٢٢١﴾...البقرة
”اور (اپنی لڑکیوں کو) مشرکوں سے نہ بیاہو۔جب تک وہ مسلمان نہ ہوں ۔گویا یوں فرمایا:
(اى لا تنكحوا أيها الاولياء مولياتكم للمشركين). (۱:فقه السنة ج۲ص۱۱۲)
”اے ولیو ! تم اپنی زیر ولایت لڑکیوں کے مشرکوں سے نکاح نہ کرو“
﴿فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ... ٢٣٢﴾...البقرۃ
” تو تم ان کو ان کے خاوندوں سے جب وہ دستور کے موفق آپس میں راضی ہو جائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو“
ان تینوں آیات سے ثابت ہوا کہ ولیوں کی اجازت کے بغیر شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔ ورنہ ولیوں کو خطاب کرنے کا کوئی معنی نہیں نکلتا ۔اب احادیث صحیحہ مرفوعہ ملاحظہ فرمائیے ۔
((وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا نكاح إلا بولي " (۲:تحفة الاحوذی :ج۲ ص ۱۷۵ ،۱۷۶ و رواء احمد و ابو داؤد وابن حبان والحاکم و صححاہ :فقه السنة ج۲ص ۱۱۲)
کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوتا ، یعنی وہ باطل ہوتا ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے :
(وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»رواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه، والترمذي، وقال: حديث حسن. قال القرطبي: وهذا الحديث صحيح.) (۱:فقه السنة ج۲ص۱۲،۱۳)
(قال الحاکم وَقَدْ صَحَّتْ الرِّوَايَةُ فِيهِ عَنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ثُمَّ سَرَدَ تَمَامَ ثَلَاثِينَ صَحَابِيًّا،وقال على بن المدينى حديث اسرائيل فى النكاح صحيح(۲:سبل السلام :ج۳ ص ۱۱۷ )
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کایہ نکاح باطل ہوگا ،باطل ہوگا باطل ہوگا ، یہ حدیث صحیح ہے ۔ابن علیہ کا کہناہے کہ امام زہری نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا لَم یَعرفَہُ۔نا قابل اعتبارہے :
(ولم يقل هذا أحد عن ابن جريج غير ابن علية، وقد رواه جماعة عن الزهري ولم يذكروا ذلك، ولو ثبت هذا عن الزهري لم يكن في ذلك حجة.لانه قد نقله عنه ثقات، منهم سليمان بن موسى، وهو ثقة إمام، وجعفر بن ربيعة، فلو نسيه الزهري لم يضره ذلك لان النسيان لا يعصم منه ابن آدم)(۳:فقه السنة ج۳ص۱۱۳)
خلاصہ کلام یہ کہ یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اور اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں ۔لہٰذا ثابت ہوا کہ صحت نکاح کے لئے شرعی ولی کی اجازت ازبس ضروری شرط ہے اور چونکہ یہ نکاح اغوا کے ساتھ پڑھا گیا ہے ،جیسا کہ سوال نامہ کی صراحت خط کشیدہ سے واضح ہے لہٰذا یہ نکاح شرعاً باطل ہے لہٰذا جنت بی بی مراد ولد پیرا کی شرعی بیوی بنی ہی نہیں کہ یہ نکاح شرعاً باطل اور لغو ہے جیساکہ سوال نامہ کی خط کشیدہ عبارت سے واضح ہے کہ بغیر ولی کی اجازت کے پڑھا گیاہے ۔ مگر چونکہ نکاح فارم پرانگوٹھے لگ چکے ہیں ۔ لہٰذا عدالت مجاز کی طرف رجوع کر کے اس نکاح کے کالعدم اور باطل ہونے کی ڈگری حاصل کرنا ضروری ہے ورنہ قانونی گرفت پریشان کرے گی ۔ اگر اس زور زبردستی اور بلا اذن ولی نکاح کے بعد مراد نے اس کے ساتھ جماع کیا تو پھر مراد کے ذمہ اس کامہر واجب الادا ہے ۔یہ جواب بشرط صحت سوال تحریر کیاگیاہے اگر اس میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے تو اس کی ذمہ داری سائلہ اور تصدیق کنندگان پر عائد ہوتی ہے میں نے تو اس سوال کے مطابق شرعی مسئلہ لکھا ہے ۔مفتی قانونی سقم اور عدالتی جھمیلوں کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب