السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی گھر سے سلائی کا کام سیکھنے جارہی تھی کہ راستہ میں چند لڑکوں نے اسے ٹھا لیا اور نکاح فارم منگواکر زبر دستی دستخط کر والئےجبکہ میں اپنی بیٹی کا ولی یعنی باپ اس صورت حال سے بے خبر ہوں اور میری اس میں رضا مندی قطعاً نہیں ہے ۔تو پھر فرمائیے کیا ایسا نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر کیاگیاہو شرعاً جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔(سائل مختار احمد ولد برکت علی قوم راجپوت بھٹی ماڈل کالونی سٹریٹ نمبر ۲۷ مکان نمبر ۲۵ اے کراچی نمبر ۲۷)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال و بشرط صحت واقعہ صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ صحت نکاح کے لئے ولی اقرب و مرشد کی اجازت شرعاًلازم ہے۔بغیر اجازت ولی اقرب پڑھا گیا نکاح قرآن حدیث کی نصوص صریحہ اور صحیحہ کے مطابق منعقد ہی نہیں ہوتا چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32 (صحیح بخاری :ج۲ص ۷۶۹)
”کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم اپنی بیویوں کو رجعی طلاق دو اور وہ طلاق کی عدت پوری کرلیں تو بعد از عدت ان کو اپنے اگلے شوہروں کے ساتھ دوبارہ نکاح کر لینے کے سے مت روکو ۔یہ حکم اپنے مضمون میں عام ہے لہٰذابیوہ اور باکرہ دونوں کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے ۔نیز فرمایاکہ نکاح نہ کرو تم اپنی عورتوں کا مشرکوں کے ساتھ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔اور فرمایا کہ بیوہ اور مجرد مردوں کا نکاح کر دیا کرو ۔چونکہ ان تینوں آیات مقدسہ میں ولیوں کو خطاب کیا گیا ہے ،لہٰذا اس خطاب سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ دلیل پکڑتے ہیں کہ صحت نکاح کے لئے ولی کی اجازت ضروری شرط ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ولیوں کو یوں خطاب منہ فرماتا ۔ پس قرآن مجید کی ان تینوں آیات سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ ولی (والد اگر زندہ ) کی اجازت کے بغیر پڑھاگیا نکاح باطل ہے۔
((وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا نكاح إلا بولي " (۲:تحفة الاحوذی :ج۲ ص ۱۷۵ ،۱۷۶ و رواء احمد و ابو داؤد وابن حبان والحاکم و صححاہ :فقه السنة ج۲ص ۱۱۲)
”حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔اس حدیث کو امام ابو داؤد ، امام ترمذی اور امام احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن حبان اور امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے ۔
((عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ» أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ إلَّا النَّسَائِيّ وَصَحَّحَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ) قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، وَصَحَّحَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَغَيْرُهُ مِنْ الْحُفَّاظِ)) ٍسبل السلام:ج۳ صٍٍ۱۱۸ )
”ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شرعی ولی کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا یہ نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے اور دخول کی صورت میں وہ مہر مشل کی مستحق ہوگی اگر متعدد ولیوں کا جھگڑا ہو تو حکمران ولی ہوگا اور یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
پس ان آیات ثلاثہ اور احادیث مذکو رہ صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت ہوا کہ صحت نکاح کے لئے ولی اقرب (والد) کی اجازت از بس ضروری ہے اور بدون اجازت ولی نکاح باطل ہے اور والد کی موجودگی میں کوئی دوسرا آدمی ولی نہیں بن سکتا ۔ لہٰذا بشرط صحت سوال یہ نکاح باطل ہے اور یہ صرف شرعی مسئلہ کا اظہار ہے ۔عدالت مجاز سے اس کی توثیق ضروری ہے اور عدالت مجاز ضابطہ کی کاروائی کی تکمیل کے بعد اپنی صوابدید اور اختیارات مفوضہ کی تنفیذ و اصرار میں مختار ہے ۔ مفتی کسی قانونی جھمیلہ اور کاروائی کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب