سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) دادا کی موجودگی میں نانا کا نکاح پڑھوانا

  • 14366
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1740

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائےدین اورمفتیان شرع متین کہ میرا لڑکا مسمی محمد رفیق ولد عبدالرحمٰن ۱۹۸۵ ء کو چھوٹی چھوٹی پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا  چھوڑ کر فوت ہو گیا تھا ۔ میں نے ہی اپنے ان یتیم  پوتیوں اور پوتوں کی کفالت و تربیت کی ہے ان بچیوں کے نانا نے ان کی کفالت اور پرورش میں قطعاً کوئی حصہ نہیں لیا ۔ اب میری بڑی پوتی جوان ہے اور اس کا نانا اور اس کی والدہ سینہ زوری اور دھمکی کے ساتھ میری اجازت اور مرضی کے خلاف میری اس جوان پوتی کا نکاح ایک ایسے شخص سے کر رہے ہیں جو غلط کار ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی اور مشفق دادا کی موجودگی اور اس کی اجازت کے بغیر لڑکی کی والدہ  اور اس کے نانا نکاح پڑھا سکتے ہیں ؟ کیا  ان کا پڑھایا ہو ا نکاح صحیح اور شرعی ہوگا یا نہیں ؟ شرعی فتویٰ صادر فرمایا جانا نہایت ضروری ہے 

(سائل عبدالرحمٰن ولد عمر دین قوم ملک بمقام غازی پور ڈاکخانہ شرقپور ضلع   شیخوپورہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ نکاح ولی مرشد (خیر خواہ ) کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی کے بغیر شرعاً منعقد نہیں ہوتا ۔چنانچہ قرآن  مجید میں متعدد آیات میں سے چند یہ ہیں :

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ... ﴿٣٢﴾ ...النور

”اور جو تم میں مجرد ہوں اور جو تمہارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں  سب کے نکاح کرادو “

وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ... ﴿٢٢١﴾...البقرۃ

”اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں ۔“

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ ...﴿٢٣٢﴾...البقرۃ

” اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سےنہ روکو“

ان تینوں آیات بینات سے معلوم ہوا کہ صحت نکاح اور اس کے انعقاد کے لئے ولی (خیر خواہ) کی اجازت ضروری ہے ۔ اگر ولیوں کو اختیار شرعاً حاصل نہ ہوتا تو ان کو خطاب کرنے کا کیا جواز  باقی رہ جاتا ہے ۔

عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ» (رواہ احمد و ابو داؤد و الترمذی و ابن حبان والحاکم و صححاہ ،فقه السنة : ج۲ص ۱۱۲ )

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعی منعقد نہیں ہوتا ۔“

قال الحاكم: وقد صحت الرواية فيه عن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم: عائشة وأم سلمة، وزينب، ثم سرد تمام ثلاثين (فقه  السنة : ج۲ص ۱۱۳ )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمیٰ  رضی اللہ عنہا  سے صحیح  حدیث  رسول ثابت اور مروی  ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر شریعت میں نکاح صحیح قرار نہیں پاتا  اور پھر امام حاکم نے پوری تیس حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان آیات قرآنیہ اور احادیث رسول سے ثابت ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا ۔ اب رہا یہ سوال کہ شریعت میں اصل اور صحیح  ولی کون ہے ؟ دادا یا نانا؟

تو جاننا چاہیے کہ اہل حدیث ، حنابلہ ، شوافع اور احناف اور جمہور علمائے کرام اسلام اس بات پر متفق ہیں اور ان کا اجماع ہے کہ اصل ولی لڑکی کا والد ہے ۔اگر والد نہ ہو ، یعنی فوت ہو چکا ہو تو لڑکی کا دادا ولی ہوتا ہے  چنانچہ العدۃ شرح عمدۃ الاحکام میں ہے ۔

(أولى الناس بتزويج الحرة ابوها ثم ابوه وان علا ثم ابنها ثم ابنه وان نزل)(ص362)  

” آزاد لڑکی کے نکاح کا ولی اس کا والد ہے ،اگر والد فوت ہو چکاہے تو پھر اس لڑکی کا دادا پھر پر دادا اوپر تک اور اگر دادا نہ ہو تو اس  عورت کا لڑکا ولی ہے  اور لڑکا زندہ نہ ہو تو پوتا نیچے تک۔" معلوم ہوا نانا کو حق ولایت حاصل نہیں۔  شرح وقایہ حنفیوں کی مشہور کتاب ہے :

(والولي العصبةعلى ترتيب الإرث  والحجب...الخ) (۱: فتاویٰ  اھل حدیث : ج ۲ ص ۴۰۷ ، ۴۰۸ )

یعنی نکاح کے باب میں ولایت کا اختیار (باپ، داداکے بعد) چچا کو حاصل ہے  ۔ماں ، دادی ، نانااور نانی کو کچھ اختیار نہیں ۔ ملاحضہ ہوفتاویٰ شیخ الکل سید نزیر حسین محدث دہلوی ج۲ ص ۳۹۹ ۔

مفتی اعظم مولوی عزیز الرحمان دیو بندی حنفی فرماتے ہیں کہ لڑکی کے باپ کے بعد دادا ولی ہوتاہے دادا نہ ہو تو پھر بھائی  ولی ہے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ۱ ص ۴۲۹۔ فتویٰ نمبر ۷۶۷ ۔

مفتی اعظم مولانا محمد شفیع کراچوی دیوبندی لکھتے ہیں ۔اگر نابالغہ کا باپ یا دادا زندہ نہیں تو اس کا ولی نکاح اس کا حقیقی  بھائی ہے ماں یا سوتیلا باپ نہیں ۔ ملاحظہ ہو فتاویٰ  دارالعلوم دیوبند ج ۲ ص ۵۴۳ فتویٰ نمبر ۴۰۶

شیخ الکل سید نزیر حسین محدث دہلوی کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ فتاویٰ نزیریہ :ص ۳۹۹ ۔

مفتی  جماعت اہل حدیث عبد اللہ روپڑی رحمتہ اللہ علیہ ارقام  فرماتے ہیں : عورت کے لئے ولی ہونا ضروری ہے ۔ اول نمبر والد ہے ، پھر بیٹا بعض  بیٹے کو اول نمبر پر رکھتے ہیں  اگر یہ ظلم کریں تو بھائی  اس کے بعد چچا کا بیٹا ۔ پھت دادے کی اولاد اس طرح اوپر جہاں تک نصب کا علم ہو ۔ غرض باپ کی طرف سے حق ولایت ہے ماں کی  طرف سے نہیں کیونکہ ماں کی قرابت کمزور ہے ۔ اس لیے ماموں یا نانا وارث نہیں ہوتے ۔ ( ۲:شرح وقایہ ج ۲ ص)

خلاصہ : خلاصہ بحث یہ کہ قرآن و حدیث کے مذکور ہ حوالہ جات کے مطابق ولی کی اجازت کے بغیر شرعاً نکاح نہیں ہوتا اور فقہائے اہل حدیث ، فقہائے مالکیہ ، فقہائے شوافعہ ، فقہائے احناف اور جمہور علمائے امت کے نزدیک دادا اور چچا کی موجودگی میں لڑکی کی والدہ ، لڑکی کا ماموں یا نانا شرعاً ولی نہیں بن سکتا اور نانا کاپڑھایا ہوا نکاح شریعت میں نکاح نہیں ہے بلکہ سفاح اور زنا ہوگا ۔ لہٰذا اس  لڑکی کے ناناا کو اس حرکت سے باز آ جانا چاہیے ۔ اس لڑکی کی ولایت نکاح کاحق صرف اس  لڑکی کے دادا  عبدالرحمٰن ولد عمر دین کو ہی شرعاً  حاصل ہے کسی اور کو ہرگز نہیں ۔ مفتی قانونی سقم کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص674

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ